زلزلہ قدرتی آفات کی مختلف اقسام میں سے ایک ایسی تباہ کُن قسم ہے جس کے رونما ہونے سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ زلزلے بنیادی طور پر زمین کی تہہ میں موجود پلیٹوں کے سرکنے کے باعث وارد ہوتے ہیں ایک دوسرا نظریہ یہ بھی ہے کہ آتش فشاں پہاڑوں کے پھٹنے سے جو آتشی مادہ زمین پر بہتہ ہے وہ بھی زمین کو ہلا کر رکھ دیتا ہے جس کی وجہ سے زلزے کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور ان علاقوں میں موجود انفرااسٹرکچر کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ زلزلے جاپان میں آتے ہیں۔ بین الاقوامی تحقیق کے مطابق جاپان میں سالانہ 1500 کے قریب زلزلوں کے واقعات ریکارڈ کیے جاتے ہیں تاہم وہاں آنے والے زلزلوں سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ دیگر ممالک کی نسبت انتہائی کم رہتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ جاپان میں بننے والی فلک بوس عمارتوں، سڑکوں، پُل اور دیگر انفراسٹکچر کو زلزلے سے ہونے والی تباہ کاریوں سے بچاؤ کی تدابیر کو سامنے رکھ کر تعمیر کیا جاتا ہے۔
ترقی کی اس دوڑ کے تاریخی اوراق اگر پلٹ کر دیکھیں تو معلوم پڑتا ہے کہ دنیا بھر میں معاشی سرگرمیوں میں بتریج اضافے کے باعث فلک بوس عمارتوں کی تعمیر میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ عمومی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ تر عمارتوں کی اونچائی شاید ہی 50 منازل سے کم ہو بلکہ اب تو ترقی پذیر ممالک بھی بلند و بالا عمارتوں کی دوڑ میں شامل ہو گئے ہیں جہاں ترقی یافتہ ممالک کی نسبت ٹیکنالوجی اور تحقیق کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔
تعمیراتی صنعت میں گراں قدر ترقی کے باوجود انسان آج بھی زلزلہ سمیت دیگر قدرتی آفات سے بچاؤ کے مکمل حل کی تلاش میں بے بس نظر آتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے ترقی یافتہ ممالک نے تعمیراتی صنعت میں جدید سائنسی علوم پر استوار زلزے سے بچاؤ کی کچھ ایسی تدابیر اور ٹیکنالوجی متعارف کروا دی ہیں جنھیں اختیار کرتے ہوئے زلزلے کے دوران جانی و مالی نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔
زلزلے کی صورت میں عمارتی ڈھانچے کو بنیادوں سے الگ رکھنے کی حیرانگیز ٹیکنالوجی
ترقی یافتہ ممالک میں فلک بوس عمارتوں کی تعمیر کے ابتدائی مرحلے میں ہی عمارت کی بنیادوں اور اس کے بالائی حصے کے درمیان ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے جس سے زلزلہ آنے کی صورت میں اس قدرتی آفت کی شدت مکمل طور پر عمارت کے بالائی حصے تک نہیں پہنچ پاتی یا پھر بالائی حصے میں زلزلے کے اثرات پہنچنے تک اس کی شدت انتہائی کم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے جانی و مالی نقصانات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
اس ٹیکنالوجی کے تحت عمارت کی بنیاد تعمیر ہونے کے بعد اس کے اوپر سائنسی طور پر زلزلہ برداشت کرنے کی بین الاقوامی اداروں سے تصدیق شدہ ’ربر بیئرنگ‘ کی ایک موٹی تہہ رکھی جاتی ہے۔ یہ تہہ ربر، بیئرنگ اور اسٹیل کی پلیٹوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اسٹیل کی پلیٹیں اس تہہ کو عمارت کی بنیادوں اور بالائی حصے سے جوڑتی ہیں۔ زلزلے کی صورت میں اس کا اثر عمارت کی بنیاد سے ہوتا ہوا صرف ربر کی تہہ تک آتا ہے جس سے عمارت کا بالائی حصہ زلزلے کی شدت سے محفوظ رہتا ہے۔
جاپان کے تعمیراتی ماہرین اور انجینئرز اس ٹیکنالوجی کو ایک درجہ اور آگے لے جا چکے ہیں جس کے تحت عمارت عملی طور پر ہوا میں تیرتی ہے۔ جاپانی ٹیکنالوجی کے تحت عمارت کی بنیاد تعمیر ہونے کے بعد اس پر ہوا سے بھرا کُشن رکھا جاتا ہے۔ یہ کُشن سینسرز کے نظام کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ زلزلے کی صورت میں سینسرز کا نظام حرکت میں آتے ہوئے ایئرکمپریسر تک معلومات پہنچاتا ہے۔ ایئرکمپریسر عمارت کے بالائی حصے کو 3 سینٹی میٹر بلندی پر لے جاتا ہے اور زلزلہ ختم ہونے کے بعد عمارت واپس اپنی جگہ پر آجاتی ہے اوراس طرح وہ عمارت زلزلے کی شدت سے محفوظ رہتی ہے۔
زلزلے کے جھٹکے کی شدت کو زائل بھی کیا جا سکتا ہے مگر کیسے؟
جس طرح کسی بھی گاڑی میں شاک ایبزاربرز اس کے اسپرنگ کی غیر ضروری حرکت کو کُشن فراہم کرتے ہیں ویسے ہی عمارتوں میں بھی ان سے یہی کام لیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے عمارت کی ہر منزل پر ’شاک ایبزاربرز‘ نصب کیے جاتے ہیں جس کا ایک سرا ستون اور دوسرا سرا بیم کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ ہر شاک ایبزاربر ایک پِسٹن ہیڈ پر مشتمل ہوتا ہے جو سیلیکون آئل سے بھرے سلنڈر کے اندر حرکت کرتا ہے۔ جب زلزلہ عمارت کے ساتھ ٹکراتا ہے تو شاک ایبزاربر کا پسٹن سیلیکون آئل پر دباؤ ڈالتا ہے اور زلزلے کی توانائی مکینیکل توانائی میں تبدیل ہوکر گرمی پیدا کرتی ہے اور اس طرح عمارت کا ڈھانچہ زلزلے کی شدت سے محفوظ رہتا ہے۔
دھات سے بنی دیومت گیند عمارت کا توازن کیسے برقرار رکھ سکتی ہے
یہ ٹیکنالوجی بھی شاک ایبزاربر سے ملتی جلتی ہے۔ دھات سے بنی دیومت گیند جیسے پینڈولم بھی کہا جاتا ہے کے تحت عمارت کے تمام ڈھانچے کا وزن اس کی چوٹی پر مرتکز کردیا جاتا ہے۔ عمارت کی چوٹی پر اس ڈھانچے کو اسٹیل کیبل کے ذریعے توازن فراہم کیا جاتا ہے۔ عمارت کے ڈھانچے اور اسٹیل کیبل کے درمیان مائع نما گاڑھا مادہ بھرا جاتا ہے۔ جب اس عمارت سے زلزلہ ٹکراتا ہے تو پینڈولم اسی قوت کے ساتھ مخالف سمت میں زور لگاتا ہے اور عمارت کو توازن فراہم کرتا ہے۔
ری انفورسڈ کنکریٹ کا عمارت کو زلزلے کی شدت سے محفوظ رکھنے میں کردار
جدید عمارتوں میں زلزلے سے محفوظ رہنے کے لیے یہ ایک نسبتاً کم لاگت جدید ٹیکنالوجی ہے۔ اس نظام کے تحت ری انفورسڈ کنکریٹ کا ایک ڈھانچہ عمارت کے مرکزی حصے میں ایلیویٹر یا لفٹ کے چاروں اطراف لگایا جاتا ہے۔ تاہم یہ ٹیکنالوجی اس وقت بہترین نتائج دیتی ہے جب اس کی بنیاد کو عمارت سے جدا رکھا جائے۔ بنیاد کو علیحدہ رکھنے کے لیے اس میں ایلاسٹیو میٹرک بیئرنگز لگائے جاتے ہیں۔ کنکریٹ کا ڈھانچہ تہوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کی ایک تہہ اسٹیل اور دوسری تہہ قدرتی ربر یا ایک مصنوعی کیمیاوی مرکب نیوپرین پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس طرح کے تعمیراتی ڈھانچے کے دو فائدے ہوتے ہیں۔ عمودی طور پر یہ انتہائی مضبوط ڈھانچہ ہوتا ہے جبکہ افقی طور پر یہ لچکدار رہتا ہے۔ یہ عمارتوں کوزلزلے سے محفوظ رکھنے کی ایک کم لاگت انتہائی مؤثر اور نسبتاً سادہ ٹیکنالوجی ہے جو دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کے لیے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔