ماضی میں بین الاقوامی صنعتی انقلاب کے بعد سے جہاں دنیا بھر میں مختلف اقسام کی صنعتوں کی مدد سے عالمی معیشت کو ایک نئی پہچان ملی اسی طرح حالیہ دور میں ریئل اسٹیٹ ایک ایسا شعبہ ہے جس نے ایک صنعت کا درجہ حاصل کرتے ہوئے پوری دنیا میں سرمایہ کاری کے نئےطریقے متعارف کروا دیے ہیں جن کی مدد سے دنیا بھر میں معیشت کا پہیہ اب ریئل اسٹیٹ سے بھی منسلک ہو چکا ہے۔
ماضی کے ادوار میں ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں چند اداروں کی اجارہ داری رہی تاہم گذشتہ چند سالوں سے جس طریقے سے ریئل اسٹیٹ کے شعبے نے ترقی کی ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ دورِ حاضر میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر باقاعدہ طور پر ایک صنعت کا درجہ حاصل کر چکا ہے اور گذشتہ کچھ عرصہ کے دوران جہاں حکومت کی جانب سے مذکورہ شعبے کے لیے بہت سی مراعات کا اعلان کیا گیا وہیں اس سیکٹر کے فروغ کے لیے بہت سے اقدامات اٹھانے کی ابھی بھی ضرورت ہے۔
پاکستان میں مختلف شعبوں جیسے انجینئرنگ، میڈیکل، توانائی، پٹرولیم، صحت، تعلیم، تجارت اور کئی دیگر شعبوں کی پہچان اور ان شعبوں کی ترویج کے لیے ایسے سرکاری ادارے موجود ہیں جو نہ صرف ان شعبوں کی ترقی و ترویج کے لیے رہنما بلکہ ایک نگران کا بھی کردار ادا کرتے ہیں۔
ان اداروں میں پاکستان انجینئرنگ کونسل، پاکستان میڈیکل کمیشن، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ دوسری جانب ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں ابھی تک سرکاری سطح پر کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں جو مذکورہ شعبے کی پہچان کے طور پر جانا جاتا ہو۔
ملک بھر میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں تعمیراتی اور رہائشی منصوبوں کے علاوہ پلاٹس کی خرید و فروخت کا کاروبار اپنے عروج پر ہے لیکن حکومت کی جانب سے مذکورہ شعبے کی عدم سرپرستی کے باعث ابھی بھی سینکڑوں سرمایہ کار اس شعبے میں سرمایہ کاری سے پہلے ایک بار یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آیا ان کی سرمایہ کاری محفوظ ہاتھوں میں ہے بھی یا نہیں۔
ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں نجی سطح پر اعلیٰ شہرت کے حامل کچھ اداروں میں سے ایک ادارہ امارات گروپ اپنے طور پر سرمایہ کاروں کو محفوظ سرمایہ کاری سے متعلق خدمات فراہم کرنے میں کوشاں ہے۔
امارات گروپ کے زیرِ انتظام پراپشور ایک ایسا ادارہ ہے جو سرمایہ کاروں کو متعلقہ اداروں سے تصدیق شدہ اور تمام تر سہولیات سے مزین تعمیراتی منصوبوں میں محفوظ سرمایہ کاری کی پیشکش کرتا ہے اور اس حوالے سے پراپشور جدید ٹیکنالوجی پر استوار جیو ٹیگنگ کی مدد سے پراپرٹی کی اصل جگہ اور اس کی ملکیت سے متعلق درست معلومات کی فراہمی یقینی بنا رہا ہے۔
ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے جڑے تعمیراتی شعبے میں لگ بھگ 43 کے قریب مختلف ذیلی شعبے وابستہ ہیں جن سےلاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے۔
حکومت کو ریئل اسٹیٹ میں صارفین کو سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ عام فہم میں بہت سے ایسے چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں جن کے حل کے لیے مہینوں درکار ہوتے ہیں۔ کسی بھی تعمیراتی منصوبے کے نقشے کی منظوری کو ہی لے لیجئیے۔
یہ کسی بھی منصوبے کے اجراء کی ایک بنیادی اکائی ہے۔ لیکن تعمیراتی منصوبہ شروع کرنے کے لیے نقشہ کی منظوری بلکل ایسے ہی ہے جیسے شیر کے منہ میں ہاتھ ڈال کے اس کے دانت گننا۔ نقشے کی منظوری میں عام طور پر 6 سے آٹھ ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے جبکہ اس مسئلے سے بطریق احسن ایک ماہ میں نمٹا جا سکتا ہے۔
اسی طرح کسی بھی تعمیراتی منصوبے کے آغاز کے لیے مختلف اداروں سے 14 کے قریب این او سی درکار ہوتے ہیں جو ایک انتہائی کھٹن مرحلہ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو چاہئیے کہ ایک ون ونڈو اپریشن کا انتظام کرے جہاں ایک مرتبہ میں ہی منصوبے کی تعمیر کے لیے درکار تمام ضروری دستاویزات کی تیاری اور منظوری کے عمل کو آسان بنایا جا سکے۔
کیونکہ مرحلہ وار نقشے کی منظوری اور این او سی کی فراہمی کے باعث نہ صرف منصوبے کی تعمیر تاخیر کا شکار ہو جاتی ہے بلکہ سرمایہ کاروں میں اعتماد کے فقدان میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے وابستہ کاروباری اداروں کا ماننا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ متعلقہ اداروں جیسے فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور ایف اے ٹی ایف سیکرٹریٹ کو آن بورڈ لے کر اِس سیکٹر کے حوالے سے کسی بھی پالیسی اور قوانین کے اجراء سے قبل ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے وابستہ کاروباری اداروں کی مشاورت کو لازمی ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے انہیں اعتماد میں لیں۔ جیسا کہ ایف بی آر کی جانب سے حال ہی میں پراپرٹی کے نئے ویلیوایشن ریٹس کے نفاذ کے حوالے سے ریئل اسٹیٹ کے افراد کو نہ تو اعتماد میں لیا گیا اور نہ ہی ان سے مشاورت کی گئی۔ جس کا ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ ریئل اسٹیٹ میں لوگوں کی سرمایہ کاری میں ایک دم سے سکونت چھا گئی۔ جبکہ دوسری جانب پراپرٹی کے سرکاری ریٹس میں اضافے کی وجہ سے لوگوں میں ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی۔
سمندر پار پاکستانی ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کے لیے ہمیشہ سے دلچسپی کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن سمندر پار پاکستانیوں کے لیے ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری سے متعلق مختلف ٹیکسوں کی مد میں اضافی رقم ان کی حوصلہ شکنی کا سبب بنتی ہے۔ حکومت کو اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اوورسیز پاکستانیز مکمل اعتماد کے ساتھ بآسانی پاکستان کی ریئل اسٹیٹ انڈسٹری میں محفوظ سرمایہ کاری یقینی بنا سکیں۔
پاکستان کو اس وقت معاشی استحکام کی جس قدر ضرورت ہے یہ اتنی پہلے کبھی نہیں رہی۔ حکومت نے کوشش تو کافی کی کہ سرکاری اداروں خاص طور پر گھروں کی تعمیر کے حوالے سے ڈیویلپمنٹ اتھارٹیز، ضلعی ادارے اور بجلی گیس کی فراہمی کے حوالے سے سرکاری محکموں میں ون ونڈو آپریشن متعارف کرایا جا سکے لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ ابھی تک اس میں وہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ایک نئی ویب سائٹ…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)کی انتظامیہ نے شہریوں کو…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام کمرشل پلاٹس…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو پلاٹوں کی نیلامی…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام ہونے…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے وفاقی دارالحکومت میں…