ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ یہ امیر ہونے کا آسان ترین راستہ ہے۔ یہ تاثر غلط نہیں ہے بشرطیکہ اس سے منسلک شخص کے پاس درست معلومات ہوں، مارکیٹ کے نبض پر اُس کا ہاتھ ہو اور اُسے قوتِ فیصلہ عطا کیا گیا ہو۔ وہ آنے والے کل کا نقشہ آج کھینچ سکے اور اُسے گویائی کے فن پر عبور ہو۔ چونکہ یہ خصوصیات ہر ایک میں نہیں ہوتیں لہذا اکثر لوگ اس سیکٹر میں داخل ہونے سے گھبراتے ہیں، کتراتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ حقیقتیں کبھی بھی کسی کے ردِ عمل کی محتاج نہیں ہوتیں لہٰذا یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر نہ صرف انسان کی بلکہ ایک پورے معاشرے کی معاشی تصویر بدل سکتا ہے۔
ریئل اسٹیٹ انویسٹمنٹ بھی ایک آرٹ ہے، ایک فن ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ یہاں کوئی ایک سٹریٹیجی اور کامیابی کا کوئی ایک نُسخہ نہیں ہے۔ دُرست راستہ مگر یہ ہے کہ تجربہ کار لوگوں سے سیکھا جائے اور اُن کے کامیابی کے قصوں کے نچوڑ سے اپنا لائحہ عمل طے کیا جائے۔ عقلمند انسان وہ تو ہوتا ہی ہے جو اپنی غلطیوں سے سیکھے مگر دوسروں کی غلطیوں سے سیکھنا واقعتاً عقلمندی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ریئل اسٹیٹ سے آمدن کیسے کمائی جائے اور ماہرین اس بارے میں کیا کہتے ہیں، آج اس کے بارے میں بات کریں گے۔
آج کی تحریر آپ کو بتائے گی کہ کیسے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو آمدن کا ذریعہ بنایا جائے۔
پراپرٹی کو کرائے پر دیں
ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے پیسے کمانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پراپرٹی کو رینٹ پر دیں۔ ہم اپنی روز مرہ کی زبان میں لفظ کرایہ داری معتدد بر استعمال کرتے ہیں اور سنتے ہیں۔ جتنا یہ لفظ روز مرہ کی زبان میں اہم ہے بلکل اتنا ہی سہل یہ ریئل اسٹیٹ سے آمدن کے حصول کو بناتا ہے۔
بہت سے سرمایہ کار یہ کرتے ہیں کہ وہ گھروں کی تعمیر کر کے اُنھیں کرائے پر دے دیتے ہیں اور ماہانہ کرایہ اُن کی آمدن کا اہم ترین ستون بن جاتا ہے۔ اس کے لیے ضروری امر یہ ہے کہ اس جگہ پر گھر کی تعمیر کی جائے جو کہ ڈیمانڈ میں ہو یعنی لوگوں کی نظر میں ہو۔ گھر کو رینٹ ریڈی کنڈیشن یعنی بہترین طریقے سے تعمیر ہونا چاہیے، ایسا ہونا چاہیے کہ لوگ صرف بے فکری سے زندگی گزاریں اور کسی مسئلے سے دوچار نہ ہوں جو کہ اُن کے سکون میں خلل کا باعث بنے۔ رینٹل پراپرٹی سے کیش فلو یعنی پیسے کا بہاؤ یقینی بنتا ہے اور یہی اس کی طاقت ہے۔
کرایہ داری میں ایک لفظ ویکنسی الاونس استعمال ہوتا ہے یعنی یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ایک کرایہ دار گھر سے چلا جائے اور ابھی دوسرے کرایہ دار کو گھر حوالے نہ کیا گیا ہو۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آپ گھر کو پچھلے کرایہ دار کے تجربات کی روشنی میں بہترین طریقے سے تیار کر سکتے ہیں۔
ہاؤس فلپنگ
یہ ریئل اسٹیٹ سے آمدن کے حصول کا ایک دلچسپ طریقہ ہے۔ اس طریقے سے لوگ ایک ایسا گھر خریدتے ہیں جو کہ اپنی بہترین حالت میں نہیں ہوتا۔ یعنی مکان میں کافی ایسا تعمیراتی کام کرنا ہوتا ہے جس سے گھر کی حالت دُرست ہو۔ یہ گھر عموماً قیمت میں باقی گھروں سے کم ہوتا ہے۔
سرمایہ کار کیا کرتے ہیں کہ وہ یہ گھر خریدتے ہیں اور پھر اس کی حالت دُرست کر کے اسے مارکیٹ کے مطابق ریٹ پر بیچ دیتے ہیں۔ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ اس کے لیے معاملات تھوڑے جلدی نمٹانے چاہئیں کیونکہ اگر ایک گھر بہت دیر سے مارکیٹ میں دستیاب ہو تو اس کی ویلیو مارکیٹ کے زور سے خود بخود کم ہوجاتی ہے۔
ہاؤس فلِپنگ کے بارے میں ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کے لیے تین چیزوں پر غور کرنا ہوتا ہے جس میں پہلی چیز لوکیشن ہے، دوسری چیز بھی لوکیشن ہے اور تیسری چیز بھی لوکیشن ہے۔ یہ سب سے اہم ترین فیکٹر ہے یعنی اسی سے یہ بات یقینی ہوسکتی ہے کہ آپ جتنے پیسوں میں گھر خریدتے ہیں اور جتنا سرمایہ اُس کی حالت سدھارنے میں لگاتے ہیں، آیا وہ ریکور ہوسکتا ہے کہ نہیں ہوسکتا۔
کمرشل ریئل اسٹیٹ
ایک بین الاقوامی جریدے میں ایک شخص کا انٹرویو پڑھنے کا اتفاق ہوا جس نے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں 5 ہزار 209 بار سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ وہ جہاندیدہ شخص کہتا ہیں کہ کمرشل ریئل اسٹیٹ آمدن اور منافع حاصل کرنے کا سب سے موثر ذریعہ ہے کیونکہ کمرشل ریئل اسٹیٹ میں پراپرٹی کی قیمت بڑھنے کا چانس ریزیڈنشل سے کئی زیادہ ہوتا ہے۔
اس میں ریٹیل بلڈنگ، آفس بلڈنگ، ویئر ہاؤس، انڈسٹریل عمارات اور مکسڈ یوز بلڈنگز شامل ہیں۔ کمرشل ریئل اسٹیٹ کو عموماً حکومتیں مختلف قسم کے ٹیکس چھوٹ بھی دیتی رہتی ہیں، یہاں لیز کے شرائط بھی خاصے نرم ہوتے ہیں اور انہیں ایک بہترین سیکورٹی ایڈوانٹیج بھی حاصل ہوتا ہے۔
کمرشل ریئل اسٹیٹ ڈویلپرز نہ صرف پراپرٹی کی فلیپنگ کرتے ہیں بلکہ اُنھیں ڈیویلپ بھی کرتے ہیں۔ کمرشل ریئل اسٹیٹ پر اُس احاطے کے رہائشیوں کی ایک خصوصی نگاہ ہوتی ہے جو کہ آمدن کے مواقع دگنے کر دیتا ہے۔
سیاحت کے لیے ایک ویکیشن اسپاٹ
یہ عنوان آپ کو دلچسپ لگ رہا ہوگا۔ لگنا بھی چاہیۓ۔ لیکن یقین رکھیے لوگوں نے اس طریقے سے بھی ریئل اسٹیٹ میں کافی آمدن کے حصول کو یقینی بنایا ہے۔ آپ دیکھیں کہ ملک کا ٹورزم پوٹینشل بڑھ رہا ہے۔ نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونی ممالک سے بھی لوگ سیاحت کی غرض سے پاکستان کے مختلف علاقوں کی طرف مائل ہیں۔
یوں لوگ ایسا کرتے ہیں کہ کسی بھی ایسی جگہ پر گھر کی یا گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کرتے ہیں جنہیں سیاحت کے لیے آنے والوں کو رہائش کی غرض سے دے دیا جاتا ہے۔ اس کے عوض اُن سے کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔ یہ مگر ایک ٹیکنیکل احاطہ ہے یعنی آپ کو گھر ایسا تیار کرنا ہے کہ جس پر کسی صورت کوئی نکتہ چینی نہ کی جا سکے۔
وہ ایسا ہو کہ سیاح اس تک خود بخود کھنچے چلے آئیں۔ یہاں بھی لوکیشن کا خیال ضروری ہے۔ وہ اس لیے کہ آپ جو مکان کرائے پر دے رہیں ہیں اگر وہ ایک ویرانے میں ہو، سیاحتی احاطے کے عین مرکز میں واقع نہ ہو، مارکیٹ اور روز مرہ کی اشیاء کی دستیابی قریب نہ ہو تو آمدن کے چانسز کم ہوجاتے ہیں۔
آفس اسپیس کی تیاری
اسی طرح آفس اسپیس کو کرائے پر دینا بھی ریئل اسٹیٹ سے آمدنی کے حصول کا طریقہ ہے۔ یعنی آپ دفاتر تیار کریں اور انہیں ایسی کمپنیوں کے حوالے کریں جو کہ کام کرنے کے لیے دے سکتے ہیں۔
چونکہ آج کا دور اسٹارٹ اپس کا ہے یعنی لوگوں کو ہمہ وقت آفس اسپیس کی تلاش رہتی ہے جہاں وہ اور ان کی ٹیم کام کر سکے۔ ایسے وقت میں آفس اسپیس کی تیاری اور پھر اُنھیں کرائے پر دینا یقیناً ایک دانشمندانہ قدم ہے۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کے لیے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ایک نئی ویب سائٹ…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)کی انتظامیہ نے شہریوں کو…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام کمرشل پلاٹس…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو پلاٹوں کی نیلامی…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام ہونے…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے وفاقی دارالحکومت میں…