پانی کی ایک ایک بوند کی قدر ضروری ہے کیونکہ اس نعمت کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں۔
کچھ حقائق
پانی ہماری زمین کا دو تہائی حصہ بنتا ہے مگر اس کا بیشتر حصہ قابلِ استعمال نہیں۔ اندازہ لگائیں کہ زمین کے 70 فیصد حصے پر جو پانی ہے اُس کا صرف 3 فیصد فریش واٹر ہے۔ اُس 3 فیصد میں سے اڑھائی فیصد گلیشیرز اور ہوا میں نمی کی صورت میں ہے یعنی پینے کے قابل ہے مگر دستیاب نہیں۔
یوں زمین کے کُل آبی ذخائر کا صرف 0.5 فیصد حصہ ہم 7 ارب سے زائد کی آبادی کیلئے دستیاب ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دنیا میں 1.1 ارب لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہی نہیں۔ دنیا میں 2.7 ارب لوگ ایسے ہیں کہ جن کو سال میں ایک ماہ پانی کی قلت شدید متاثر کرتی ہے اور 2.4 ارب لوگ ایسے ہیں جو ناقابلِ استعمال پانی پیتے ہیں۔ یوں اُن کا یرقان، ہیضے اور دیگر امراض کا شکار ہونا گویا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔
کچھ مزید لرزا دینے والے حقائق کے مطابق ہر سال 2 ملین افراد صرف ڈائریا یعنی اسہال کے مرض سے لقمہ اجل بنتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق عالمی سطح پر آبی ذخائر میں خطرناک حد تک کمی واقع ہورہی ہے۔ سال 2025 میں، جو کہ ہم سے محض 4 برس کی مسافت پر ہے، دنیا کی آبادی کا دو تہائی حصہ آبی وسائل کی کمی سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہوگا۔
کچھ پاکستان کے بارے میں
پاکستان میں آبی مسائل کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
پہلا حصہ اُن لوگوں کا ہے کہ جن کو صاف پانی تک رسائی نہیں۔ دوسرا یہاں آبی ذخائر کی کمی ہے، تیسرا یہ کہ صوبوں کے مابین پانی کی غیر متوازن تقسیم ہورہی ہے اور چوتھا یہ کہ آبی وسائل غلط طریقے سے مینیج اور ریگولیٹ کیے جارہے ہیں۔
چونکہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 6 ممالک میں سے ایک ہے، یہ مسائل بڑھنے کا خدشہ ہے۔ بڑے شہروں میں زیادہ آبادی کے باعث حالات مزید سنگینی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق کراچی کی 20 فیصد آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں۔ آبی ذخائر کی گرتی صحت کے پیچھے ہمارے انڈسٹریل سیکٹر یعنی کارخانوں کا بڑا کردار ہے جو کہ وہاں گندگی کا اخراج کرجاتے ہیں۔
اسی طرح سے یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ 70 کی دہائی کے بعد پاکستان میں کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا۔ اب کہیں جا کر ديامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی بنیاد رکھی گئی ہے اور ان پر کام جاری ہے۔ ڈیموں کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم پانی ذخیرہ نہیں کر پاتے اور بارشیں زیادہ ہونے کی صورت میں ندی نالوں میں طغیانی کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے، اربن فلڈنگ کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے، دیہات زیر آب آجاتے ہیں، اور بارشیں نہ ہونے کی صورت میں قحط سالی کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔
ایک اور اسٹڈی یہ بتاتی ہے کہ پاکستان کے پاس محض 30 روز کی کیری اوور فسیلٹی ہے جو کہ عالمی سطح پر دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ عالمی سیاست اور بھارت کے ساتھ آبی معاہدے ہوں یا مقامی سیاست اور صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم، آبی وسائل کے تحفظ کیلئے حالات کبھی بھی زیادہ اچھے نہیں رہے۔ پاکستان میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ چھوٹے صوبوں کو اس ضمن میں ہمیشہ بڑے صوبوں سے شکوہ رہتا ہے اور یوں پانی کی تقسیم آج بھی ہمارے مُلک کے چند بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔
یہ مسائل حل کیسے کیے جائیں؟
مسائل کا تذکرہ تو ہوگیا مگر حل کیسے ممکن ہو اس پر بات ہونی چاہیے۔ پاکستان میں فی الحال واٹر ریسورسز پر کوئی مستند ڈیٹا دستیاب نہیں۔ نہ ہی ایسے کوئی فیکٹس اینڈ فگرز موجود ہیں جس سے ہمیں یہ اندازہ ہوسکے کہ آبی ذخائر کس تیزی سے کمی کا شکار ہیں۔ یوں اس ضمن میں ریسرچ اور ڈیٹا بیس تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاملات مکمل طور پر کلیئر ہوسکیں۔
اسی طرح سے پاکستان کو اپنی واٹر ریسورس مینجمنٹ بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے نظام کے فروغ کی ضرورت ہے کہ جس میں فلیٹ یوزر فیس کے بجائے پانی کے استعمال کے مطابق اُس کا بل آیا کرے۔ ایسے لوگ کم لاگت کے چکر میں کم پانی استعمال کیا کریں گے اور پانی کے بچاؤ کا عمل یقینی ہوگا۔ اسی طرح سے واٹر فلٹریشن پلانٹس کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو صاف پینے کے پانی تک رسائی ممکن بنائی جاسکے۔ ڈیمز کی تعمیر کی رفتار بڑھانے کی ضرورت ہے اور نئے ڈیموں کی بنیاد رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ پانی کو ڈمپنگ سائٹ بنانے کے عمل کے خلاف بھرپور مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ آبی ذخائر کی آلودگی کو روکا جاسکے۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کے لیے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔