موسمیاتی تبدیلی سے بچاو اور اربن پلیننگ حالیہ دنوں میں حکومت اسلام آباد کے ماسٹرپلان میں ترامیم کے لیے سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔اس سلسلے میں کئی اہم اجلاس بھی ہو چکے ہیں جن میں متعلقہ اداروں کے سربراہان نے اپنے موقف دیے۔ اسلام آباد کا ابتدائی ماسٹر پلان 1960 میں بنا یا گیا تھا۔ جو بلا شبہ اس وقت کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر بنا یا گیا تھااوراس کی معیاد 1980ء تک تھی۔ اس کے بعد آج تک معمولی تبدیلیوں کے علا وہ اسلام آباد کے مسائل کے حل کے لیے کوئی جامع منصو بہ بندی نہیں کی گئی۔ تقریباً 20 لاکھ کی آبادی پر مشتمل اس شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔نیشنل سینسز2017کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں آبادی کے اضافے کی شرح4.91 فیصد ہے جو پاکستان کے تمام شہروں میں آبادی کے اضافے کی شرح میں سب سے زیا دہ ہے۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے مسائل میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
منظم رہائشی آبادیوں کے ساتھ ساتھ تقریباً 1لاکھ افراد کچی آبادیوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اسلام آباد کی 21فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے جو ایک سوالیہ نشان ہے۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور مناسب نطام نکاسی آب نہ ہونے کی وجہ سے کئی مہلک بیماریاں جنم لیتی ہیں۔حالات یہ ہیں کہ شہر اقتدار کے صرف 54فیصد باسیوں کو پائپ لائنز کے ذریعے پانی مہیا کیا جاتا ہے، جبکہ باقی آبادی پانی جیسی بنیادی ضرورت کیسے مہیا کرتی ہے، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
اگر ماحولیاتی تبدیلی میں اضافے پر توجہ مرکوز کر کے اعداد و شمار کی کھوج لگائی جائے توحقائق انتہائی تشویشناک ہیں۔2020ء تک اسلام آباد کے درجہ حرارت میں 0.7تک اضافہ ممکن ہے۔ہمارے پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ زیر زمین پانی کی سطح میں کمی کی سالانہ شرح 0.7 فیصد ہے۔تیزی سے بڑھتی ٹریفک بھی ماحولیاتی تبدیلی کے لیے خطرناک ہے۔ فیڈرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفس کے اعداد و شمار کے مطا بق اسلام آبادمیں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد7لاکھ ہے اور روزانہ کی بنیاد پر تقریبا50سے 70موٹر بایکس، جبکہ 100سے زائد نجی و سرکاری گاڑیاں رجسٹرکی جاتی ہیں۔
گزرتے وقت اورصنعتی ترقی کی بدولت ماحولیاتی آلودگی انسانیت کے لیے ایک تشویشناک صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیش کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں فضائی آلودگی کی سطح 66ug/m3تک پہنچ گئی ہے اور یہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیش کی محفوظ سطح سے 6.6گنا زیادہ ہے جبکہ لاہور کے اندر یہ سطح 6.8گنا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اسلام آباد ماسٹر پلین کے تحت بننے والا شہر ہے لیکن یہاں آلودگی کی سطح لاہور کی سطح آلودگی سے صرف 0.2گنا کم ہے۔
اس تمام صورتحال کے مد نظر، اب اگر ہم نے بلاخر ماسٹر پلان میں ترامیم کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ماحولیاتی آلودگی میں کمی اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے بچاوٗ کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جائے۔ پاکستان ما حولیاتی آلودگی کا شکار کوئی واحد ملک نہیں ہے۔دنیا بھر میں ترقی یافتہ قوموں نے ان تمام چیلنجز کا ادراک رکھتے ہوئے بہترین منصوبہ بندی کر کے منظم اور محفوظ شہر آباد کیے ہیں۔ دنیا کے اکثر گنجان آباد شہروں کو ان مسائل کا سامنا تھا لیکن ترقی یافتہ قوموں نے ان مسا ئل کے حل کے لیے بر وقت اور جامع منصو بہ بندی کی۔پڑوسی ملک چین کے کئی شہروں میں ایسی اصلاحات کی گئی جن کی بدولت ماحولیاتی آلودگی پر قابو پا لیا گیا۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق چین کے جنوب مشرقی صوبے لیوننگ کا دارلحکومت شین یانگ 1988 میں دنیا کے دس گنجان آباد شہر وں میں شامل تھا۔شہر کی آلودگی میں اضافہ کرنے والی تمام صنعتوں کو ایک سال میں ایسی اصلاحات کرنے کا حکم دیا گیا جن سے آلودگی میں کمی کی جا سکے۔ اور سال 2000ء تک ایسے700کارخانوں کو بند کر دیا گیا جو ماحولیاتی آلودگی کا سبب تھے۔کوئلے کے گھر یلو استعما ل کو ترک کر کے قدرتی گیس کو اپنایا گیا،بجلی کی پیداوار کے لئے پاور پلانٹس میں سلفر ریموورز اور واٹر میمبرین ڈسٹ کی تنصیب کی گئی اور روزانہ کی بنیاد پر 1.5 ملین ٹن گدلے پانی کی نکاسی جانے لگی۔ یہ ایک مشکل سفر تھا لیکن بہترین منصوبہ بندی اور بھر پور عملی اقدامات کی بدولت سال2000میں شین یانگ گنجان آباد شہر ہونے کے ساتھ ساتھ چین کے ماحولیاتی اعتبار سے بہترین شہروں میں 12ویں نمبر پر تھا۔ یہ کاوشیں رکی نہیں بلکہ سال 2003میں شین یانگ شہر میں ماحولیاتی صفائی کے لیے 181ملین ڈالر کی رقم مختض کی گئی۔
مستقبل میں چین میں ایک ایسا شہر بسنے جا رہا ہے جو درختوں اور پودوں سے بھر پور ہو گا۔ "فاریسٹ سٹی” کے نام سے بسائے جانے والے اس شہر میں 30ہزار افراد کو آباد کیا جائے گا جبکہ شہر میں 10 لاکھ پودے اور 40ہزار درخت لگائے جائیں گے۔اس شہر میں بسنے والے ہر فرد کے لیے ایک درخت اور 33پودے میسر ہوں گے۔ مو سمیاتی تبدیلی سے رونما ہونے والے مسائل پر قابو پانے کے لیے یہ ایک ماڈل شہر ہو گا۔
اربن پلیننگ میں سنگاپور کو ایک ممتا ز حثیت حاصل ہے۔ مقامی انتظامیہ نے بھر پور منصوبہ بندی کے تحت سنگاپور کو ایک سمارٹ سٹی کے طور پر تعمیر کیا ہے۔ ماضی قریب میں یہ شہر بھی بے شمار مسائل کا شکار تھا۔سال 1963 میں سنگا پور شہر میں پانی کی ترسیل اور نکاسی کا کام مختلف وزارتوں اور ایجنسیز میں بٹا ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے ایک منظم اور طویل المعیاد حکمت عملی بنانا نا ممکن تھا۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور صاف پانی کے محدود وسائل کے پیش نظر ایک نیشنل واٹر ایجنسی PUB کا قیام عمل میں لا یا گیا۔ اس ادارے کے عملی اقدامات کی وجہ سے اب شہر کی زمینی سطح کادو تہائی حصہ پانی حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور شہر میں 17مقامات پر پانی کو محفوظ کیا جا تا ہے۔ اس کے علاوہ گندے پانی کو جمع کر کے جدید ترین تکنیکی مہارت کے ذریعے اسے پینے کے قابل بنا یا جا تا ہے اور اس پانی سے شہر میں پانی کی 30فیصد ضرورت کو پورا کیا جاتا ہے۔ 2060 میں اس پانی کا حدف 50 فیصد تک رکھا گیا ہے۔سنگا پور شہر کی منصوبہ بندی میں بے شمار ایسے اقدامات کیے گئے ہیں جس سے شہر میں رہنے والوں کی بنیادی سہولیات زندگی کی فر ا ہمی یقینی بنائی گی ہے۔ شہر میں عمارتیں اس منظم انداز میں بنائی گئی ہیں کہ ہوا کا آسانی سے گزر ہوسکے یعنی عمارتوں کو بالکل جوڑ کر نہیں بلکہ مناسب خلا چھوڑ کر بنایا گیا ہے۔ بلند عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں لیکن پورے شہر سے ہوا کے گزر کو یقینی بنایا گیا ہے تا کہ قدرتی ہوا سے درجہ حرارت کو قابو میں رکھا جائے۔
یہ ان تجربات اور منصوبہ بندی کا ایک مختصر عکس ہے جو دنیا میں موسمیاتی تبدیلی سے بچاوٗ کے لیے کی گئی ہے۔ اب جب پاکستان کے وفاقی دارلحکومت کے ما سٹر پلین میں ترامیم کی تیاریاں کی جا رہی ہیں تو ہمیں مستقبل کے مسائل کا ادراک کرنا ہو گا۔ بلند عمارتیں بنانی ہوں گی اور کم از کم زندگی کی بنیادی ضروریات جیسے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا۔ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کے لیے ایسی جامع اور دیر پا منصوبہ بندی کر نا ہو گی جس سے ہم اپنے شہروں میں نا صرف منظم آبادیاں بسائیں بلکہ عوام الناس کے بنیادی مسائل پر بھی قابو پا سکیں۔ روشن اور خوشحال پاکستان کی تعمیر کے لئے جامع منصوبہ بندی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
invest with imarat
Islamabad’s emerging city centre