لاہور: تجارتی سرگرمیوں سے وابستہ تاجروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی سطح پر مہنگائی کی لہر کی وجہ سے مشکلات کی شکار صنعتوں اور کارپوریٹ سیکٹر کے 13 شعبوں پر 10 فیصد سُپر ٹیکس کے نفاذ کے فیصلے پر نظرِثانی کی جائے۔
لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر مہر کاشف یونس نے کہا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر پہلے ہی 29 فیصد بھاری ٹیکس ادا کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے طبقات پر سُپر ٹیکس لگانے کی بجائے 1 کروڑ 85 لاکھ شناخت شدہ ٹیکس نا دہندگان اور زرعی شعبے کو ٹیکس کے دائرے میں لائے۔
آئندہ مالی سال کے لیے 13 شعبوں کی بڑی صنعتوں پر اضافی 10 فیصد سُپر ٹیکس جبکہ دیگر تمام شعبوں پر 4 فیصد اضافی سُپر ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق بلڈرز اور ڈویلپرز جو مکانا ت تعمیر کر کے فروخت کرتے ہیں ان پر فِکس ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ایکٹو ٹیکس پیئر فہرست میں شامل سمجھا جائے گا۔ پلاٹ پر عائد 50 فیصد کیپٹل گین ٹیکس کو ختم کر دیا گیا ہے۔
پلاٹوں کی آمدن پر عائد ٹیکس شہدا کی فیملی کیلئے ختم کر دیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ آئی ٹی کے شعبے پر عائد وِد ہولڈنگ ٹیکس واپس لے لیا گیا ہے۔
انفرادی سطح پر اور کمپنیوں کی 15 کروڑ روپے سے 20 کروڑ روپے کی آمدن پر ایک فیصد سُپر ٹیکس، 20 کروڑ روپے سے 25 کروڑ روپے تک کی آمدن پر 2 فیصد سُپر ٹیکس، 25 کروڑ روپے سے 30 کروڑ روپے کی آمدن پر 3 فیصد سُپر ٹیکس اور 30 کروڑ روپے سے زائد کی آمدن پر 4 فیصد سُپرٹیکس جبکہ 25 لاکھ دکانوں پر 3 ہزار روپے سے 10 ہزار روپے تک فِکس ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے مطابق سونےاور جیولری کی 300 مربع فٹ سے کم کی دکانوں پر 40 ہزار روپے فِکس ٹیکس لگایا گیا ہے جبکہ 300 مربع فٹ سے بڑی سونے اور جیولری کی دکانیں کو ٹیئر ون کیٹگری میں شامل کیا گیا ہے اور ان پر 3 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہوگا۔
ان صنعتوں میں چینی تیار کرنیوالی صنعت، سیمنٹ، سٹیل، ٹیکسٹائل، کھاد، بنکنگ انڈسٹری، آئل اینڈ گیس، بیوریجز انڈسٹری، ایل این جی ٹرمینلز، ائرلائنز، کیمیکلز، آٹو موبائل یعنی گاڑیاں تیار کرنیوالی اور سگریٹ تیار کرنیوالی صنعت شامل ہے جبکہ ایسی تمام صنعتیں جن کی آمدن 30 کروڑ روپے سے زائد ہے اس پر ایک سال کیلئے 4 فیصد سُپر ٹیکس لگے گا۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔