یہ بات تو طے ہے کہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے اصل پوٹینشل کے ادراک سے ہی مُلکی معاشی ترقی کا سفر تیزی سے طے ہوسکتا ہے۔ یہ بات بھی طے ہے کہ تعمیراتی صنعت اور ساتھ پچاس سے زائد الائیڈ صنعتوں کی ترقی سے روزگار کے مواقع اور برآمدات کی شرح میں خوب اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
جہاں طے شدہ باتوں کا ذکر ہورہا ہے وہیں اس بات کا بھی ذکر کرلیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کو اگلے چند سالوں میں 2 کروڑ ہاؤسنگ یونٹس چاہئیں اور ہمارے ملک میں ہاؤسنگ یونٹس کی فی کس سب سے زیادہ ڈیمانڈ ہے۔ یہ بات جاننا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی کُل اراضی کا محض 0.5 فیصد حصہ پلانڈ تعمیرات کے زمرے میں آتا ہے یعنی وہاں کی تعمیر ایک پلان کے تحت کی گئی ہے اور پاکستان کے پلانڈ علاقوں کا معاشی پوٹینشل دو ٹریلین ڈالر سے زائد کا ہے۔
ڈیجیٹل ڈیٹا کی ضرورت کیوں؟
حال ہی میں کیڈسٹرل میپنگ کے ابتدائی مرحلے کی تکمیل کے بعد یہ معلوم ہوا کہ 5.6 ٹریلین روپے مالیت کی حکومتی زمین پر لینڈ مافیا قابض ہے۔ اس سروے کو وزیرِ اعظم پاکستان جناب عمران خان نے ٹویٹر پر شیئر کرتے ہوئے لینڈ مافیا کے خلاف خوب ایکشن کی ہدایت کی تھی۔ یاد رہے کہ سروے سے یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پاکستان کے تین بڑے شہر یعنی کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں 2.63 ٹریلین روپے کی سرکاری زمین زیرِ قبضہ ہے۔ اسی طرح سے پاکستان میں 1.86 ٹریلین کی گرین ڈیویلپمنٹ کے لیے مخصوص اراضی پر بھی لینڈ مافیا کے ڈیرے ہیں۔
پاکستان اور پلانڈ تعمیرات کا فقدان
یاد رہے کہ پاکستان کا صرف ایک ہی شہر ایسا ہے جسے پلانڈ شہر کہا جاسکتا ہے اور وہ شہرِ اقتدار یعنی اسلام آباد ہے جس کا 47 فیصد حصہ پلانڈ ہے۔ لاہور کے 1 ہزار 772 مربع میٹر کا صرف 29 فیصد حصہ پلانڈ ڈیویلپمنٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ حکومتِ وقت نے جہاں کم لاگت ہاؤسنگ یونٹس اور تعمیراتی صنعت کے فروغ کے لیے خاطر خواہ اقدامات اٹھائے وہیں شہری مراکز کی ماسٹر پلاننگ کے ضمن میں کافی اقدامات جاری کیے۔ ہم نے دیکھا کہ پاکستان میں پہلی بار بڑے شہروں کو یہ احکامات جاری کیے کہ وہ اپنے اپنے ماسٹر پلانز پر کام تیز کریں اور مستقبل کی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس بات کہ تعین کریں کہ کونسی چیز کہاں تعمیر کی جانی چاہیے۔
ماسٹر پلان کیا ہوتا ہے؟
ماسٹر پلان دراصل ایک لانگ ٹرم ڈاکومنٹ ہوتا ہے جس میں ترقیاتی اداروں کی مدد سے شہر کے مستقبل کی باقاعدہ تصویر کھینچی جاتی ہے۔ ماسٹر پلان یوں تو ایک لانگ ٹرم ڈاکومنٹ ہے تاہم اس میں بہت ساری ترامیم کی جاتی ہیں اور وقت کے ساتھ بدلتے تقاضوں کا خصوصاً خیال رکھا جاتا ہے۔ یہاں پر ایک بات انتہائی ضروری ہے کہ سانتیاگو کے ماسٹر پلان میں اب تک 29 ترامیم کی گئی ہیں، یعنی یہ شہر اور شہر کے باسی وقت سے ساتھ ساتھ بدلتے اور ڈھلتے جارہے ہیں۔ ماسٹر پلان اربن ماحول میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ایک کثیر مقصدی ڈاکومنٹ ہے جس کے متعدد پورشن ہوتے ہیں، اس کی ڈیویلپمنٹ ایک بار نہیں ہوتی بلکہ اسے مختلف حصوں میں، مختلف اذہان کی مدد سے تیار کیا جاتا ہے۔ کسی بھی علاقے کا ماسٹر پلان ہو، اُس کی ابتدا فیزیبیلٹی اسٹڈی سے ہوتی ہے، اس میں دستیاب ریسورسز کے بہتر استعمال پر توجہ دی جاتی ہے اور شہر کے تاریخی، جغرافیائی اور ماحولیاتی منظر کو ملحوزِ خاطر رکھا جاتا ہے۔
پراپشور اور اربن پاکستان کا ڈیجیٹل ڈیٹا
حال ہی میں پراپشور ڈیجیٹل سلوشنز نے پاکستان کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں ایک اور سنگِ میل عبور کرتے ہوئے ملکی پلانڈ ایریا کا ڈیجیٹل ڈیٹا لانچ کیا۔ یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ پراپشور پراپرٹی کی انسپکشن اور ویریفیکیشن کی سہولت دینے والا اپنی نوعیت کا پہلا ادارہ ہے۔ دیکھا جائے تو مُلکی پلانڈ ایریا کی ڈیجیٹل میپنگ لانچ کرنا واقعتاً ریئل اسٹیٹ کی تاریخ میں ایک شاندار باب کا اضافہ ہے۔ اس اقدام سے ریئل اسٹیٹ ٹرانزیکشنز میں شفافیت کا فروغ ہوگا۔ ڈیجیٹل میپنگ کی اِس کوشش کے پیچھے پروفیشنلز، ڈویلپرز اور ٹاؤن پلانرز کی مکمل ٹیم کار فرما تھی، یہ اس بات کا ادراک ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل میں صلاحیتوں کی کمی نہیں، ضرورت ہے تو صرف اور صرف ٹیلنٹ کو چینل دینے کی اور ایک فریم ورک مہیا کرنے کی۔ ٹیلنٹ اور پوٹینشل کے ادراک سے حقیقتاً مُلکی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔
اس اقدام کے فوائد
ڈیجیٹل ڈیٹا کی لانچ کرتے ہوئے ڈائریکٹر پراپشور تیمور عباسی کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل نقشے کے اجراء سے کسی بھی پراپرٹی کی مکمل جانکاری اور تفصیل حاصل کی جاسکتی ہے۔ پراپرٹی کی قانونی اسٹینڈنگ اور حیثیت کی جانچ سے اس سیکٹر میں لوگ خود کو فراڈ اور دھوکہ دہی جیسے سنگین معاملات سے بچا سکتے ہیں۔ مزید برآں ڈیجیٹل میپنگ اور آن لائن پراپرٹی انسپکشن اور ویریفیکیشن کے علاوہ پراپشور فیزیبلٹی اسٹڈیز اور ٹیکنیکل ایڈوائزری کی مکمل سہولیات بھی مہیا کرتا ہے۔ یہ اقدام لائقِ تحسین ہے کہ اب بذریعہ انٹرنیٹ لوگ اربن پاکستان میں کسی بھی پراپرٹی کی مکمل تفصیلات کی جانچ کرسکتے ہیں، یعنی وہ کام جو پٹواری نظام میں ہزارہا کاغذات کھنگالنے کے بعد بھی نہ ہوتا تھا، اب محض چند کلکس میں ہوسکتا ہے۔ یہ وہ قدم ہے جس کا فائدہ پاکستان میں رہنے والوں کے ساتھ ساتھ اوورسیز پاکستانیوں کو بھی ہوگا جن کو قبضہ مافیا اور ریئل اسٹیٹ ٹرانزیکشنز میں اکثر شفافیت کے نہ ہونے کا شکوہ رہتا ہے۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ایک نئی ویب سائٹ…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)کی انتظامیہ نے شہریوں کو…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام کمرشل پلاٹس…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو پلاٹوں کی نیلامی…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام ہونے…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے وفاقی دارالحکومت میں…