ہمارے شہر بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے خوب پھیلاؤ کا شکار ہیں۔ لوگ بہتر روزگار اور معیارِ زندگی کے مواقع ڈھونڈتے شہری علاقوں کا رُخ کرتے ہیں تاکہ وسائل کے گرد گھومتے اس دور میں سر اُٹھا کر چلنا ممکن ہوسکے۔
یوں ہمارے شہر اپنے دِلوں میں انواع و اقسام کی کہانیاں سموئے صبح سے رات اور رات سے سپیدہ سحری تک کا فاصلہ طے کرتے ہیں۔ کوئی بھی شہر ویسے ہی نہیں بس جاتا۔ شہروں کو بستے بستے عمریں بیت جایا کرتی ہیں۔ یہ مختلف حصوں پر مبنی ایک مجموعہ اپنے ساتھ ایک ثقافت، ایک اندازِ زندگی لیے پنپتا ہے۔ آج ہم لوگوں کے لہجوں، اُن کے پہناوے اور اُن کے اندازِ فکر سے ہی اُن کے آبائی شہروں کا اندازہ لگا لیا کرتے ہیں۔ اور اکثر اوقات بلکل ٹھیک لگایا کرتے ہیں۔ اُس کی وجہ محض یہ ہے کہ ہر شہر اپنی ایک منفرد روایت اور ایک الگ طریقِ زندگی کا امین ہوتا ہے۔
آج کی تحریر شہری احاطوں میں اوپن اسپیسز کی اہمیت اور افادیت پر مبنی ہے۔ یہ اوپن اسپیسز ضروری ہیں تاکہ قدرتی ایکوسسٹم کا تحفظ کیا جاسکے، اربن لائف سٹائل کیلئے درکار ضروری آکسیجن کا بندوبست کیا جاسکے اور جنگلی حیات کو افزائشِ نسل کیلئے ایک محفوظ جگہ فراہم کی جاسکے۔
اوپن اسپیسز انواع و اقسام کے ہوتے ہیں۔ آج کی تحریر اسی بارے میں ہے۔
کہتے ہیں کہ جس شہر کے پارک آباد ہوں، وہاں کے ہسپتال خود بخود ہی ویران ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ شہری علاقوں میں دو طرح کے پارکس پائے جاتے ہیں، ایک ہاؤسنگ سوسائٹیز کے اندر اور دوسرا جنگلات کے لیے وقف کردہ زمین یعنی فاریسٹ پروٹیکٹڈ ایریاز میں۔ پاکستان میں خیبر پختونخوا اور پنجاب میں جنگلات کے لیے وقف کردہ اراضی میں نیشنل پارکس کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں نو قدرتی پارکس کا سنگِ بنیاد رکھا گیا اور ان کا قیام عمل میں ہے۔ یہ ایک بہترین سیاحتی مقام بننے کا پوٹینشل رکھتے ہیں اور مقامی معیشت کیلئے بھی ایک نیک شگون ہوا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ رہائشی علاقوں کے قریب پارکس بچوں کیلئے کھیل کود جبکہ بڑوں کیلئے واک اور ایکسرسائز کی ایک اچھی جگہ فراہم کرتے ہیں۔
گرین بیلٹ بیشتر لوگوں کیلئے دو مصروف سڑکوں کے درمیان والی ایک سبز جگہ ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی جریدے فوربز کے مطابق گرین بیلٹ درجہ حرارت کی ریگولیشن اور نوايز پولوشن یعنی شور کی آلودگی سے بچاؤ میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ بات مگر اُن کی چوڑائی پر منحصر ہے۔ ایک پلان کے تحت بنائے گئے شہروں میں گرین بیلٹس کی چوڑائی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ بیشتر ویل پلانڈ شہروں میں گرین بیلٹس پر چھوٹے چھوٹے چڑیا گھر بنائے گئے ہوتے ہیں یا اُن کی تزئین و آرائش اس صورت میں کی جاتی ہے کہ وہاں خوبصورت کیاریاں، انواع و اقسام کے پودے، اور بیٹھنے کی غرض سے بینچز کا انتظام کیا جاتا ہے جہاں لوگ تفریح کی غرض سے رُخ کیا کرتے ہیں۔
اسی طرح سے اوپن پلے گراؤنڈز یعنی کشادہ میدان بھی بہت ضروری ہوا کرتے ہیں جہاں شام کے وقت بچے آپ کو کرکٹ اور فٹ بال جیسے کھیلوں میں مگن دکھائی دیتے ہیں۔ فوربز کا کہنا ہے کہ بیشتر جنوبی ایشیائی ممالک میں اربن ایریاز میں پھیلاؤ اور ہاؤسنگ سوسائٹیز کی بھرمار سے کھیلوں کے لیے مختص کردہ پلے گراؤنڈز میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔ ایسے میں بچوں کے پاس کھیلنے کو مناسب جگہیں کم ہی رہ جاتی ہیں جس سے معاشرے میں منفی رجحانات، ڈپریشن، بیماریوں یعنی ذیابیطس اور موٹاپے سمیت بہت سے مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ شہری علاقوں میں اوپن پلے گراؤنڈز کا نہ صرف تحفظ کیا جائے بلکہ مزید میدانوں کیلئے بھی راہ ہموار کی جائے تاکہ ہماری نوجوان نسل حقیقی معنوں میں مثبت اور صحت مند سرگرمیوں کی جانب مائل ہو۔
کورونا وبا کے باعث 2019 کے باعث آؤٹ ڈور ڈائننگ کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ مشہور ویب سائٹ ریسٹورنٹ ڈائیو کے مطابق فائن ڈائننگ میں 62 فیصد جبکہ کیثول ڈائننگ میں عالمی سطح پر 56 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ویب سائٹ کے مطابق لوگ چونکہ اب اس وبا کے اثرات سے بخوبی آگاہ ہوچکے ہیں لہٰذا سماجی فاصلے کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، تاہم ان ڈور ڈائننگ کی آپشن اگر دی بھی جائے تو لوگ آئوٹ ڈور ڈائننگ کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کے لیے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔