کسی بھی گھر کی تعمیر میں ایک ابتدائی تصور سے لے کر آخری تعمیراتی مرحلے تک بہت وقت درکار ہوتا ہے۔ گھر کی تعمیر شروع کرنے میں تعمیراتی سامان کا انتخاب ابتدائی اور اہم ترین مرحلہ ہے جو گھر کی تکمیل کے بعد ہر گزرتے سال کے ساتھ آپ کے فیصلے کی نفی یا وضاحت کرتا ہے۔ سیمنٹ، ریت، سریا اور بجری کی طرح کسی بھی گھر کی مضبوط چھت کی تعمیر میں کسی زمانے میں شہتیر انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے تھے جو مضبوطی اور پائیدای سمیت گھروں کی چھتوں کی سجاوٹ اور تزئین و آرائش میں بھی کلیدی اور مثبت کردار ادا کرتے تھے۔
شہتیر یا بیم کسی بھی گھر کی تعمیر میں چھت یا دیواروں کے نیچے گھر کی اندرونی جانب بنائے یا نصب کیے جاتے ہیں۔ یہ مضبوط اور ٹھوس ساخت پر مبنی سیدھی یا خم دار شکل میں بنائے جاتے ہیں جن میں اینٹوں، پتھروں، لکڑی یا دھات کا استعمال کیا جاتا ہے۔
مقامی اصطلاح میں ہم شہتیر لکڑی کے ان بھاری ستونوں کو کہتے ہیں جو 70 اور 80 کی دہائی میں ہمیں گھر کی چھت یا دیواروں پر اکثر دیکھنے کو ملتے تھے جبکہ بیم تعمیر کے دوران سیمنٹ، بجری سے بنایا جانے والا افقی یا عمودی ستون کہلاتا ہے لیکن دونوں کا مقصد اور کردار ایک ہی ہوتا ہے۔
شہتیر دیواوں اور چھت کے وزن کو برداشت کرنے، توازن برقرار رکھنے اور سہارا دینے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔
شہتیر روایتی طور پر عمارت یا سول انجینئرنگ کا ساختی عنصر ہوتے ہیں جو افقی اور عمودی بوجھ اٹھاتے ہیں۔ اور گھر یا عمارت کے مرکز پر بوجھ کو تقسیم کرتے ہیں۔
عام طور پر آپ کو گھروں میں دیواروں، فرش، چھت، بالائی منازل اور گیراج میں شہتیر لگے اکثر نظر آئیں گے۔ اگر آپ اپنے گھر کی تزئین و آرائش کا منصوبہ بنا رہے ہیں تو کسی سول انجینئر سے مشورہ کریں کہ کس قسم کے بیم یا شہتیر استعمال کیے جائیں۔
تعمیراتی شہتیر افقی ہوتے ہیں۔ عمارت کی تعمیر میں ان حصوں کا وزن اٹھانے میں مددگار ہوتے ہیں جو کسی بھی دو حصوں پر پُل کا کام کرتے ہیں۔ یہ عمارت کی ساخت اور مضبوطی کا خیال رکھتے ہیں چاہے ایک باورچی خانہ تیار کرنا ہو یا بڑی عمارت، شہتیر کے بنیادی عوامل سے واقف ہونا ضروری ہے۔
آئی بیم انگریزی کے حرف آئی سے بنا ہے۔عام طور پر تجارتی عمارتوں کے بڑے منصوبوں میں آئی بیم کا استعمال عام ملے گا۔ لیکن وہ گھروں اور خاص طور پر اندرونی دیواروں کو بھی فریم کرتے ہیں۔
ٹھیکیدار اور بلڈرز بنیادوں یا تہہ خانے کی دیواروں کے اوپر آئی بیم لگاتے ہیں جہاں وہ گھر کی اوپری سطح کو سہارا فراہم کرتے ہیں۔ یہ بیم گیراج کی تعمیر میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ جہاں وہ گیراج کے دروازے کھولنے اور بند کرنے والی گاڑیوں کے لیے ٹریک کا کام کرتے ہیں۔
اسٹیل فیبریکیشن کمپنیاں لکڑی اور دھات کو ایک ساتھ باندھ کر فلچ بیم بناتی ہیں۔ لکڑی کے ساتھ دھات کا حصہ اضافی طاقت فراہم کرتا ہے۔ یہ سٹیل کی شہتیر سے ہلکا ہوتا ہے لیکن لکڑی کے شہتیر سے زیادہ وزن برداشت کر سکتا ہے۔ فلچ بیم خاص طور پر اس حصے پر تزئین و آرائش کے لیے مناسب ہیں جہاں بوجھ اٹھانے والی دیوار کو ہٹانا مشکل ہوتا ہے۔
عام فہم میں جہاں لکڑی اکیلے کام نہیں کر سکتی تھی وہاں تیار شدہ فلچ بیم نصب کیے جاتے ہیں۔ فلچ بیم ایک اسٹیل پلیٹ سے بنی ہوتی ہے جو لکڑی کے دو شہتیروں کے درمیان سینڈویچ ہوتی ہے اور ان تین تہوں کو بولٹ کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔
باکس بیم اصلی لکڑی پر مبنی درمیان سے خالی شہتیر ہوتے ہیں جو وزن میں بہت ہلکے ہوتے ہیں اور معیاری ٹھوس بیم کے مقابلے میں انہیں نصب کرنا آسان ہوتا ہے۔ ان کھوکھلی لکڑی کے شہتیروں کو برقی تاروں یا پلمبنگ کو خوبصورت طریقے سے ڈھانپنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ خوبصورتی میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔
چار ڈھلوان پہلوؤں والی چھت کو ہپ روف کہا جاتا ہے۔ کسی بھی گھر یا عمارت کی تعمیر میں ہپ وہ جگہ ہے جہاں چھت کے مختلف حصے ملتے ہیں۔ ان چھتوں کو ہپ بیم یا رافٹرز کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ مختلف شہتیروں کے کئی چھوٹے جوڑوں کو سہارا دیتے ہیں جو درخت کی شاخوں کی طرح اس سے منسلک ہوتے ہیں۔ اس میں لکڑی کے شہتیر روایتی ہیں لیکن سٹیل کے شہتیر زیادہ عام ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ شہتیر عام طور پر پُل، ٹاورز اور اونچی عمارتوں کی کھڑکیوں، بالکونیوں اور کنوپیز کی تعمیر میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ عمارت کے ڈھانچے میں انہیں صرف ایک سرے پر سہارا دیا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ ایک چپٹی عمودی سطح میں پھیلا ہوا ستون کی مانند ہوتا ہے جسے دیوار کے ساتھ مضبوطی سے جوڑا جاتا ہے۔ یہ کینٹیلیور بیم شہتیر یا سلیب کے طور پر بنایا جاتا ہے۔
کینٹیلیور کی تعمیر اضافی سپورٹ کے بغیر کسی بھی عمارت یا پُل کے ڈھانچے کو عام حالات سے زیادہ جھکنے کی اجازت دیتی ہے۔
بانڈ بیم وہ شہتیر ہیں جو دیواروں کے اندر لگائے جاتے ہیں جیسے پتھر، مٹی، اینٹ یا سیمنٹ کی دیواریں۔
یہ شہتیروں پر مشتمل ایک ایسا گروپ ہے جو افقی ڈھانچے جیسے بالائی منزل، فرش یا چھت کو سہارا دینے کے لیے نصب کیے جاتے ہیں اور اسے ہمیشہ گارڈر یا شہتیر سے سپورٹ کیا جاتا ہے۔
ہیڈرز وزن اٹھانے والے شہتیر ہیں جو بیرونی اور بوجھ برداشت کرنے والی اندرونی دیواروں میں دروازوں اور کھڑکیوں پر نصب کیے جاتے ہیں۔
دھات یا لکڑی کے شہتیروں کا انتخاب صارف کی پسند پر ہوتا ہے۔ مضبوطی میعار اور خوبصورتی کا مقابلہ کیا جائے تو اسٹیل لکڑی سے کہیں زیادہ مضبوط اور دیرپا ہے۔
دھاتی شہتیر کا سب سے بڑا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ لکڑی کے شہتیروں سے زیادہ بھاری بوجھ کو سنبھال سکتے ہیں۔ یہ آرکیٹیکچرل ڈیزائن اور فرش کے منصوبوں کے لئے بھی مناسب ہے جو صرف لکڑی کے مواد کے ساتھ ہی ممکن ہیں. اسٹیل کو لمبائی میں پھیلایا جا سکتا ہے۔ اسٹیل کے شہتیروں کو چھت کی خوبصورتی کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لکڑی کے شہتیروں کا ایک بنیادی مسئلہ اپنے سائز میں بتدریج سکڑنا ہے۔ لکڑی کے شہتیر سکڑ کر دیواروں میں بنائے کئی جوڑ سے دور ہو سکتے ہیں اور مختلف خدشات کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ لکڑی کو دیمک لگنے یا لکڑی کے گلنے جیسے عوامل بھی تعمیراتی منصوبے کے نقصان کا سبب بن سکتے ہیں۔
تاہم سٹیل کے شہتیر موسمی شدت کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
لکڑی کو دوبارہ ڈیزائن اور تیارکیا جا سکتا ہے لیکن لکڑی سٹیل کی طرح ماحول دوست نہیں ہے۔ اسٹیل کے شہتیر ناقابل یقین حد تک دیرپا اور پائیدار ہوتے ہیں اور لکڑی سے زیادہ لمبی عمر رکھتے ہیں۔
ایک سے بڑھ کر ایک ڈیزائن اور تزئین و آرائش کے طریقے اب گھروں کی تعمیر میں اپنائے جا رہے ہیں۔ لکڑی کے پرانے بھاری اور وزن دار شہتیروں کی جگہ اب نازک دکھائی دینے والے اور جدت کے معیار کو چھوتے شہتیر گھروں کا حصہ بنائےجاتے ہیں جبکہ دھاتی شہتیر بھی سجاوٹ اور خوبصورتی میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ایک نئی ویب سائٹ…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)کی انتظامیہ نے شہریوں کو…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام کمرشل پلاٹس…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو پلاٹوں کی نیلامی…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام ہونے…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے وفاقی دارالحکومت میں…