پاکستان سیاحتی اعتبار سے برف کی سفید چادر اوڑھے آسمان کو چھوتی چوٹیوں، سرسبز و شاداب میدانوں، قدرتی جھیلوں، آبشاروں، موتی بکھیرتے جھرنوں اور تاریخی مقامات جیسے مغلیہ دور میں جدید فنِ تعمیر کے عکاس قلعوں، محلات اور دیگر سیاحتی مقامات کی وجہ سے دنیا بھر میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔
یہاں دیکھنے کے لیے بہت سے ایسے تاریخی مقامات ہیں جو زمانہ قدیم کے مختلف ادوار میں جدید مشینری اور دورِ حاضر کی سہولیات کی عدم دستیابی کے باوجود انسانوں نے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیے ہیں۔ یہ تاریخی ورثہ جیسا کے دفاعی اعتبار سے تعمیر کیے گئے مظبوط قلعے، بادشاہوں، نوابوں، رؤسا اور اُمراء کی رہائش کے لیے تعمیر کیے گئے محلات اپنے فنِ تعمیر، خوبصورتی اور دلکشی کے لیے دنیا بھر میں ہمیشہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔
آج کی اپنی اس تحریر میں ہم قارئین کی دلچسپی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 10 ایسے تاریخی قلعوں اور محلات سے متعلق انتہائی مفید معلومات شامل کر رہے ہیں جن کے بارے میں آج سے پہلے آپ نے پہلے کبھی نہ سنا ہو گا۔
گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ کے علاقے کریم آباد میں واقع التیت قلعہ دراصل ریاستِ ہنزہ کے موروثی حکمرانوں کا گھر تھا جو میر کا لقب رکھتے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ قلعہ تقریباً 900 سال پرانا ہے جو اسے گلگت بلتستان کی قدیم ترین یادگار کے طور پر دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے ہمیشہ سے توجہ کا مرکز رہا ہے۔
ماضی بعید میں التیت قلعہ انتہائی خستہ حالی کا شکار رہا لیکن بعد ازاں اسے آغا خان ٹرسٹ نے ناروے اور جاپان کی حکومتوں کی مالی امداد سے تزئین و آرائش کے بعد اصل شکل میں بحال کر دیا تھا۔ یہ تاریخی قلعہ 2007ء سے سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا تھا جس کے بعد سے پاکستان سمیت دنیا بھر سے بین الاقوامی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد ہر سال گرمیوں کے موسم میں یہاں کا رُخ کرتی ہے۔
پاکستان میں فنِ تعمیر کی خوبصورتی اور شان و شوکت کے لحاظ سے سیاحوں کے لیے مشہور ترین مقامات میں سے ایک صادق گڑھ محل ہے جو کہ صوبہ پنجاب کے جنوبی حصے ضلع بہاولپور کے ڈیرہ نواب صاحب میں واقع ہے۔ یہ محل 1882ء میں بہاولپور کے بادشاہ نواب صادق محمد خان چہارم نے تعمیر کروایا تھا۔ اُس دور کے ماہر انجینئرز کی نگرانی میں اس محل کی تعمیر پر لاگت کا تخمینہ پندرہ لاکھ روپے لگایا گیا تھا جب کہ اس محل کے تعمیر دس سال کی طویل مدت میں مکمل ہوئی تھی۔
یہ محل چاروں اطراف میں ایک اونچی دیوار سے گھِرا ہوا ہے اور اِس کے اندر سرسبز و شاداب باغات ہیں۔ ہر کونے میں گڑھ ہے اور عمارت کے بیچ میں ایک خوبصورت گنبد ہے۔
روہتاس قلعہ پاکستان کی سب سے متاثرکُن تاریخی یادگاروں میں سے ایک ہے جسے ایک جنگ جُو بادشاہ شیر شاہ سوری نے 1540ء اور 1547ء کے درمیانی عرصے میں تعمیر کروایا تھا۔ یہ تاریخی مقام جہلم کے قریب دینہ شہر کے عقب میں واقع ہے۔ یہ قلعہ پوٹھوہار کے مقامی قبائل کو کچلنے کے لیے بنایا گیا تھا جسے گکھڑ کہتے ہیں۔ دراصل شیر شاہ سُوری نے گکھڑوں سے ڈر کر اپنا تخت بچانے کے لیے یہ قلعہ بنوایا تھا۔
بارہ دروازوں والی بڑی چبوترہ نما دیواروں کی دوسری جانب 30,000 آدمیوں کی فوج کی تشکیل کے باعث اس قلعہ کو مکمل ہونے میں 8 سال کا عرصہ لگا۔ یہ قلعہ بے ترتیب شکل کا ہے جو کہ مجموعی طور پر 5.2 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔
لال قلعہ جسے مظفرآباد قلعہ بھی کہا جاتا ہے، کشمیر کے ضلع مظفرآباد میں دریائے نیلم کے کنارے واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس قلعے کی تعمیر کا آغاز ابتدائی طور پر مقامی حکمرانوں نے کیا تھا تاہم اسے 1646ء میں مظفرآباد شہر کے بانی سلطان مظفر خان نے مکمل کیا تھا۔ کشمیر میں مغل دورِ حکومت میں یہ قلعہ اپنی اہمیت کھو بیٹھا تھا کیونکہ مغل بادشاہ افغانستان کے دارالحکومت کابل، بخارا اور بدخشاں میں تعمیراتی سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ بعد ازاں ڈوگرہ حکمرانوں مہاراجہ گلاب سنگھ اور رامبیر سنگھ نے اپنی سیاسی اور فوجی کارروائیوں کے لیے دفاعی نقطہ نظر سے اس قلعہ کی تعمیرِ نو اور توسیع کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ قلعہ تین اطراف سے دریائے نیلم سے گھِرا ہوا ہے۔ اس کے فنِ تعمیر سے پتہ چلتا ہے کہ اُس دور کے عظیم تعمیراتی ماہرین نے اس قلعے کی تعمیر میں حصہ لیا ہو گا۔
دراوڑ قلعہ ڈیرہ نواب صاحب بہاولپور سے 48 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ پاکستان کے سب سے بڑے مربع نما قلعے میں سے ایک ہے اور آج بھی بہت اچھی حالت میں ہے۔ اس کے چالیس گڑھ ہیں جو صحرائے چولستان میں کئی میل تک دکھائی دیتے ہیں۔ دیواریں تیس میٹر تک اونچی ہیں جبکہ ان کا فریم 1500 میٹر حجم کا ہے۔ اسے جیسلمیر کے ہندو راجپوت رائے ججا بھاٹی نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ 1733ء میں بہاولپور کے نوابوں کے قبضے تک جیسلمیر کے شاہی خاندان کی رہائش گاہ کے طور پر زیرِ استعمال رہا۔ بہاولپور کے نوابوں اور ان کے خاندانوں کے مقبرے بھی اس قلعے میں موجود ہیں۔
فیض محل پاکستان کے شاندار تعمیراتی اثاثوں میں سے ایک ہے جو صوبہ سندھ کے ضلع خیرپور میں واقع ہے۔ اس خوبصورت محل کی تاریخ دو سو سال کے عرصہ پر محیط ہے۔ اسے 1798ء میں کہیر پور کے شاہی خاندان تالپور میروں نے تعمیر کروایا تھا۔ چونکہ خیرپور میروں (امیر اور امیر لوگوں) کا شہر تھا اس لیے انہوں نے وہاں بہت سی یادگار عمارتیں بنائیں اور فیض محل ان شاندار عمارتوں میں سے ایک ہے۔ یہ محل جسے آرام گر یعنی آرام کی جگہ بھی کہا جاتا ہے بہت سی خوبصورت عمارتوں اور باغات پر مشتمل ہے۔ یہ مغل طرزِ تعمیر کا ایک لازوال شاہکار ہے۔
قلعہ بالا حصار خیبر پختونخواہ کے صوبائی دارالحکومت پشاور کے تاریخی مقامات میں سے ایک ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں بالا حصار قلعہ افغان بادشاہوں کی رہائش گاہ تھا۔ اس قلعہ کو بالا حصار کا نام پشتون بادشاہ تیمور شاہ درانی نے دیا تھا جس نے قلعہ کو افغان درانی سلطنت کے سُرمائی دارالحکومت کے طور پر استعمال کیا۔ سکھ سلطنت جس نے 1823ء کے اوائل میں نوشہرہ کی جنگ میں پشاور کو فتح کیا، اس کا نام سمیر گڑھ رکھا لیکن یہ نام مقبول نہیں ہوا۔ اس قلعے نے کئی مواقع پر فاتحوں، جنگجوؤں، حملہ آوروں اور بادشاہوں کی طرف سے اپنی تباہی اور پھر تعمیرِ نو دیکھی۔ آخری تباہی افغان بادشاہ شیر شاہ سُوری نے دی تھی اور مغل بادشاہ ہمیون نے اس کی تعمیرِنو کی تھی۔ ہمیون بادشاہ نے خود اِس قلعہ کی تعمیرِنو کی نگرانی کی کیونکہ وہ اسے ہندوستان کی فتح کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔
قلعہ رانی کوٹ جسے سندھ کی عظیم دیوار بھی کہا جاتا ہے، سندھ کے ضلع جامشورو میں کیرتھر سلسلے کے لکی پہاڑوں میں واقع ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا قلعہ ہے جس کا مجموعی حلقہ تقریباً 26 کلومیٹر پر محیط ہے۔ اسے پاکستان کا سب سے بڑا طلسماتی عجوبہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ قلعہ ممکنہ طور پر ایک فارسی رئیس عمران بن موسیٰ برمکی نے تعمیر کیا ہے جو عباسیوں کے دور میں 836ء میں سندھ کے گورنر تھے۔ قلعے کی تعمیر کے اصل مقاصد اور معمار کے بارے میں کوئی شواہد موجود نہیں ہیں لیکن موجودہ ڈھانچے کی تعمیرِنو میر کرم علی خان تالپور اور ان کے بھائی میر مراد علی نے 1812ء میں کی تھی۔
بہاولپور کا نور محل برطانوی راج کے دوران ریاست بہاولپور کے نواب کی ملکیت تھا۔ نور محل کی تعمیر کا کام 1872ء میں نواب سبحان صادق چہارم نے شروع کیا تھا۔ اس نے یہ محل اپنی بیوی کے لیے بنوایا تھا۔ تاہم اس نے وہاں صرف ایک رات گزاری جب اس نے اپنی بالکونی سے ملحقہ قبرستان دیکھا تو اس نے وہاں ایک اور رات گزارنے سے انکار کر دیا۔ اور اس لیے یہ ان کے دورِ حکومت میں غیر استعمال شدہ رہا۔ نور محل بہاولپور کے پوشیدہ تاریخی جواہرات میں سے ایک ہے۔ اب یہ عام عوام کے لیے سیر کی غرض سے کھلا ہے اور فی الحال پاکستان آرمی کی ملکیت ہے اور اسے سرکاری مہمان خانہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
قلعہ لاہور جسے شاہی قلعہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جو دیواروں والے شہرِ لاہور کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ قلعہ کی تعمیراتی تاریخ غیر واضح ہے تاہم کہا جاتا ہے کہ موجودہ ڈھانچہ مغل بادشاہ اکبر نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ 20 ہیکٹر ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے اور اسے مغل، سکھ اور برطانوی حکمرانوں نے باقاعدگی سے اپ گریڈ کیے رکھا۔ قلعہ کے دو دروازے ہیں۔ عالمگیری گیٹ شہنشاہ اورنگزیب نے تعمیر کروایا جو بادشاہی مسجد کی طرف کھلتا ہے اور مستی یا مسجدی گیٹ جو شہنشاہ اکبر نے تعمیر کروایا تھا وہ اندرون شہر کے مستی گیٹ کے علاقے کی طرف کھلتا ہے۔ فی الحال مستی گیٹ مستقل طور پر بند ہے اور عالمگیری گیٹ کو داخلی دروازے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ قلعہ کے احاطے میں بادشاہی مسجد، شیش محل، عالمگیری گیٹ، نولکھا پویلین اور موتی مسجد جیسے تعمیراتی عجائبات شامل ہیں۔ یہ مغل فنِ تعمیر کی بھرپور روایات کی عکاسی کرتا ہے۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ایک نئی ویب سائٹ…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)کی انتظامیہ نے شہریوں کو…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام کمرشل پلاٹس…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو پلاٹوں کی نیلامی…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام ہونے…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے وفاقی دارالحکومت میں…