تعزیراتِ پاکستان کے مطابق طاقت، روپے پیسے، دھونس اور اسلحہ کے زور پر غیر قانونی طور پر زبردستی کسی کی زرعی اور کمرشل اراضی، پلاٹ یا گھر سے اصل مالک کو بے دخل کرتے ہوئے ذاتی قبضے میں رکھنے والے افراد یا گروہ کے لیے قبضہ مافیا کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
قبضہ مافیا کے زیرِ تسلط نہ صرف نجی بلکہ سرکاری اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ ساز باز کر کے حکومتی اراضی پر غیر قانونی قبضہ بھی ملکی قوانین کے مطابق ایک سنگین جُرم ہے۔ علاوہ ازیں ہاؤسنگ سوسائٹیز یا رہائشی منصوبوں کے لیے سڑک یا گزرگاہ کے لیے شہری کو زمین کی اصل قیمت سے کم کی ادائیگی بھی غیر قانونی قبضے کے زمرے میں آتا ہے۔
پاکستان کی سول عدالتوں میں آج بھی ہزاروں کی تعداد میں ایسے مقدمات زیر التواء ہیں جن کا براہِ راست تعلق قبضہ مافیا کا دھونس زبردستی سے معصوم شہریوں کو ان کی پراپرٹی یا وراثتی جائیداد اور اراضی سے بے دخل کرنا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی سیشن کورٹس سمیت، اعلیٰ عدلیہ اور عدالتِ عظمیٰ میں مجموعی طور پر ہزاروں کی تعداد میں ایسے مقدمات زیرِ التواء ہیں جن میں قبضہ مافیا اور معصوم شہریوں کے مابین مڈبھیڑ کے نتیجے میں کئی شہری یا تو اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا پھر زندگی کا بڑا حصہ جیلوں کی اونچی دیواروں کے پیچھے قید کی نظر کر چکے ہیں۔
شہریوں کی رہنمائی کے لیے آج ہم اپنی تحریر میں قبضہ مافیا کے خلاف شکایات درج کرانے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کریں گے کیوںکہ پاکستان کے ہر خاص و عام شہری کے حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے تاہم قوانین سے متعلق عدم آگاہی کی وجہ سے عام طور پر شہریوں کو ایسے قبضہ مافیا سے نمٹنے میں اکثر مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
پاکستان سٹیزن پورٹل
بلاشبہ پاکستان سٹیزن پورٹل حکومت کا ایک احسن اقدام ہے۔ یہ پورٹل بنیادی طور ریاستِ پاکستان کے شہریوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ان کی شکایات کے بروقت ازالے، مظلوم کی دادرسی اور ظالم کے خلاف قانونی کاروائی پر عملدرآمد یقینی بنانے پر عمل پیرا ہے۔
حکومت نے جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ اور باآسانی قابل استعمال پاکستان سٹیزن پورٹل کے نام سے ایک موبائل ایپلیکیشن کا اجراء کر رکھا ہے۔ شکایات کنندہ یا کوئی بھی صارف ابتدائی طور پر اپنے موبائل فون پر یہ ایپلیکیشن انسٹال کرتا ہے۔ اس ایپلیکیشن کے ہوم پیج پر سب سے پہلے صارف کو پورٹل سے ہم آہنگ ہونے کے لیے اپنی شناخت بنانا ہوتی ہے۔
مذکورہ ایپلیکیشن سے ہم آہنگ ہونے کے بعد شکایات کے اندراج کے پیج پر صارف اراضی، مکان یا پلاٹ پر غیر قانونی قبضے سے متعلق معلومات اور تفصیلات فراہم کرنا ہوتی ہیں۔ تمام معلومات کی فراہمی کے بعد صارف اپنی درخواست آن لائن جمع کروا دیتا ہے اور چند ہی منٹ بعد حکومت کے متعلقہ ادارے کی جانب سے صارف کو دیے گئے موبائل فون نمبر پر شکایات کے موصول ہونے کی تصدیق کا پیغام بھیج دیا جاتا ہے اور درخواست کو متعلقہ ادارے کو بھیجتے ہوئے اسے جلد از جلد نمٹانے کے احکامات صادر کر دیے جاتے ہیں۔
عوام کے حقوق کے تحفظ میں محکمہ پولیس کا کردار
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ پاکستان میں محکمہ پولیس اور شہریوں کے مابین ایک باہمی ربط اور دادرسی کی تاریخ کبھی بھی اطمینان بخش نہیں رہی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے مواقع دیکھنے کو ملے جب محکمہ پولیس کے افسران نے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غریب شہریوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کو ترجیح دی۔
پاکستان میں رائج فوجداری قوانین کے تحت تمام شہری قبضہ مافیا یا جرائم پیشہ افراد کی جانب سے ان کی اثاثہ جات، اراضی، پلاٹ، گھر، دکان یا ذاتی جائیداد پر اسلحہ، طاقت اور دھونس کی بنیاد پر قبضہ کے نتیجے میں فوری طور پر محکمہ پولیس سے رجوع کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ جبکہ محکمہ پولیس کی یہ قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی شکایت پر بلا تاخیر اور تعصبی رویوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ان شکایات کے فوری ازالے کے لیے قانون کے مطابق کاروائی عمل میں لائے۔
قبضہ مافیا کے خلاف عوامی شکایات کی دادرسی میں عدلیہ کا کردار
پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں عدلیہ ریاست کے چار بنیادی ستونوں میں سے وہ سب سے مظبوط ستون ہے جس نے اپنے فیصلوں سے یہ ثابت کیا کہ ریاست، حکومتی ادارے، یا کوئی بھی طاقتور مافیا قانون سے بالاتر نہیں ہے اور طاقت کا اصل سرچشمہ صرف اللہ تعلیٰ کی ذات ہے۔ اسلحہ، زور زبردستی، دھونس اور طاقت کے استعمال سے کسی شہری کی اراضی یا پراپرٹی پر غیر قانونی قبضے کے حوالے سے اِل لیگل ڈسپوزیشن ایکٹ 2005 موجود ہے جس کے تحت کوئی بھی شہری قبضہ مافیا کی جانب سے پراپرٹی پر غیر قانونی قبضے کی صورت میں سیشن جج کی عدالت میں اپنی درخواست جمع کروا سکتا ہے جس پر سیشن کورٹ کا جج متعلقہ پولیس آفیسر سے تحقیقات جلد از جلد مکمل کر کے رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کے احکامات صادر کرے گا۔
بلاشبہ پاکستان میں شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے ان قوانین پر مکمل عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے ریاست اور عدلیہ کی جانب سے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی آج بھی ضرورت ہے۔ ریاستی قوانین پر عملدرآمد ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے تحت ملک میں عام شہری کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔