پاکستان میں اربن پلاننگ کے معاملے پر لکھا تو بہت گیا مگر عملی میدان میں ہمیشہ ایک ویرانی دیکھی گئی۔
ہمارے شہروں کی اگر فضائی نگرانی کی جائے تو لگتا ہے کہ یہاں صرف جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کا نظام رائج ہے۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ یہ شہر بنائے نہیں گئے، یہ بنتے چلے گئے۔ یعنی جس کو جہاں جگہ ملی، اُس نے وہاں آؤ دیکھا نہ تاؤ، اپنی من چاہی تعمیر کرلی۔ وہ شہر جو ماسٹر پلان کے تحت بنائے جانے تھے، وہ شہر آباد تو ہوگئے مگر ماسٹر پلانز کو بالائے طاق رکھ دیا گیا، جہاں وہ دیمک زدہ ہوتے ہوتے بلآخر فرسودہ ہوگئے۔
حکومتِ وقت کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کیلئے لیے گئے اقدامات
حالیہ حکومت نے بلاشبہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی ترقی کیلئے کچھ عملی اقدامات اٹھائے ہیں۔ یعنی اس سیکٹر کے مسائل کا ادراک کیا ہے اور معاملہ فہمی کو وقت کی ضرورت گردانتے ہوئے اِس کے حقیقی پوٹینشل تک پہنچنے کا ارادہ کررکھا ہے۔ سفر ہے شرط، مسافر نواز بتھیرے کے مصداق کہیں نہ کہیں سے آپ کو آغاز کرنا ہوتا ہے، اسٹارٹ لینے کے بعد معاملات خود بخود حل ہونے کے راستے پر گامزن ہوجاتے ہیں۔
کم لاگت ہاؤسنگ یونٹس کی تعمیر، قبضہ مافیا کا پیچھا، ریئل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کی راہ ہموار کرنا، بڑے شہری مراکز کی ڈیویلپمنٹ اتھارٹیز کو بحال کرنا اور انہیں بااختیار بنانا، ون ونڈو آپریشن اور قوانین کا نفاذ اور اُن کی آسانی اُن اقدامات میں سے ہے جو حالیہ حکومت نے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کیلئے کیے ہیں۔ علاوہ ازیں، وزیرِ اعظم نے مُلک کے 28 بڑے شہروں کے ماسٹر پلانز دوبارہ سے بنانے کے بھی احکامات جاری کیے ہیں جو کہ اپنی تکمیل کے مرحلے میں ہیں۔ اِن سب باتوں کو سیاہ رات کے بعد ایک اُجلے سویرے کی پہلی کرن ضرور کہا جاسکتا ہے، صبح صادق ہرگز نہیں۔ ابھی ایک لمبا سفر باقی ہے۔
گرانہ ڈاٹ کام کی آج کی تحریر اِس بارے میں ہے شہروں کو بغیر پلاننگ کے بنانے کے نقصانات کیا ہوتے ہیں اور پاکستان کو اربن پلاننگ میں درپیش مسائل کا حل کیسے کیا جاسکتا ہے۔
اربن پلاننگ کیوں ضروری ہے؟
گزشتہ دنوں برطانیہ میں کلائمیٹ چینج کے تدارک کیلئے کوپ 26 نامی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں گلوبل لیڈرشپ کو مدعو کیا گیا کہ وہ ایسے اقدامات یقینی بنائے کہ دنیا ماحولیاتی تبدیلی کے مہلک اثرات سے بچ سکے۔ اُس ایونٹ کا حاصل کیا تھا، وہ ایک الگ بحث ہے تاہم یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ اُس کانفرس میں گورننس اور شہری مسائل کا براہِ راست میل ضرور ثابت ہوا۔ بدقسمتی سے ہمارے مُلک کے پلانڈ شہروں کی اگر بات کرلی جائے تو صرف ایک شہر کی مثال دی جاتی ہے جو کہ اسلام آباد ہے۔ گزشتہ دنوں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ شہرِ اقتدار کی تقریباً 28 ہزار ایکڑ اراضی پر لینڈ مافیا قابض ہے۔ اگر اسلام آباد جیسے پلانڈ شہر کے یہ حالات ہیں تو دیگر شہروں میں کیا صورتحال ہوگی، آپ اِس کا بخوبی اندازہ لگا کر بھی حالات کی اصل سنگینی کا اندازہ شاید نہ لگا پائیں۔
پلانڈ شہری احاطوں کی اہمیت صرف اسی بات سے سمجھیں کہ موہنجودڑو، ہڑپہ اور ٹیکسلا جیسے تاریخی اہمیت کے حامل شہروں یعنی قدیم ثقافتوں میں بستے صدیوں پرانے لوگ بھی اپنے شہروں کو ایک ترتیب، ایک پیٹرن کے تحت بنانے میں کامیاب تھے۔
اربن پلانز میں کن عوامل کا خیال رکھا جائے؟
شہروں کے اربن پلانز میں چند چیزوں کا خیال رکھنا کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اُس شہر کی اکنامک کنڈیشن، ثقافت اور اطوار، سماجی سمجھ بوجھ، پبلک ٹرانسپورٹ، اسٹیٹ پالیسی اور سیکیورٹی کو ملحوظِ خاطر رکھ کر جو ماسٹر پلانز بنائے جائیں، وہ شہر کو ایک ترتیب دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اِس کے برعکس اگر شہروں کے ماسٹر پلانز کو اِن فیکٹرز سے بالا ہو کر بنایا جائے تو اُن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
جو شہر ماسٹر پلانز کے بغیر تعمیر ہونے دیے جائیں وہاں ویسٹ مینیجمنٹ، مفادِ عامہ کی سہولیات اور ٹریفک جام سمیت بہت سے مسائل سر اٹھانے میں دیر نہیں لگاتے۔ اربن پلاننگ نہ ہو تو ماحولیاتی مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ لاہور میں بڑھتی اسموگ اور اُس پر عدالت کا اسکول اور دفاتر کو بند کرنے کے احکامات جاری کرنے کا فیصلہ اِس کی صرف ایک حالیہ مثال ہے۔ اسی طرح سے سالڈ ویسٹ منیجمنٹ کا نظام بھی نہیں ہوتا، لینڈ فلز کا مسئلہ بھی درپیش ہوتا ہے اور شہر کے شہر کسی بڑے کوڑے دان کا منظر پیش کرتے ہیں۔
درپیش مسائل اور اُن کا حل
اربن پلاننگ کے سامنے درپیش ایک بڑا مسئلہ آبادی میں بے پناہ اضافہ ہے۔ آج کا دور ہی ایسا ہے کہ جدید طرزِ زندگی کیلئے درکار وسائل کے حصول کی کوشش میں لوگ بڑے پیمانے پر شہری مراکز کا رُخ کررہے ہیں، شہری احاطوں میں لوگوں کا ہجوم بڑھتا جارہا ہے اور دستیاب اراضی اور وسائل کی کمی تیزی سے واقع ہورہی ہے۔ صرف کراچی کی ہی مثال لے لیں کہ جس کی آبادی 16 ملین ہے۔ پاکستان کے قیام کے ابتدائی ایام میں اس شہر کی آبادی محض ساڑھے چار لاکھ تھی۔ آج اس شہر کی آبادی میں 60 گنا اضافہ ہوا ہے اور آئے روز ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی ایسا مسئلہ سر اٹھا رہا ہے جس کا براہِ راست تعلق اربن پلاننگ ہے۔ پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی، شہر میں فائر برگیڈز کی عدم موجودگی، غیر قانونی کثیر المنزلہ عمارات اور بڑھتے ہوئے جرائم اِن میں سے چند ایک ہیں۔
اربن پلانرز کیلئے کچھ گزارشات
ایسے میں اربن پلانرز کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کیسے اِس بڑھتی ہوئی آبادی کا پھیلاؤ روک کر ایک ایسا بیلنس نظام بنایا جائے جہاں ریزیڈینشل، کمرشل اور تفریحی مراکز کی تفریق ہو اور ہر شخص کو وسائل تک رسائی ہو۔ جیسے جیسے اربن مسائل کا حل کیا جائیگا، لوگوں کے معیارِ زندگی اور مُلکی معاشی ویلیو پر ایک اچھا اثر پڑے گا۔ یوٹیلیٹی نیٹورکس یعنی پانی، بجلی، گیس، ٹیلی کمیونیکیشن سسٹمز، سب آج کل ایسی ضروریات ہیں کہ جن کی سب تک رسائی ضروری ہے۔ اربن پلاننگ کیلئے ضروری ہے کہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا جائے۔ اسی طرح سے ماسٹر پلانز کی تیاری میں دُرست مردم شُماری کے بعد عوامی رائے کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کے مسائل کا زمینی حقائق کی روشنی میں حل یقینی بنایا جاسکے۔ اِس ضمن میں بلدیاتی اداروں کو بّااختیار بنانا بھی ضروری ہے تاکہ نچلی سطح پر جو محرومی کا احساس ہے، اُسے مٹایا جاسکے۔ یہاں یہ بات بھی ضروری ہے کہ اربن پلانز ایک آدھ دن کا معاملہ نہیں، اِن میں مسلسل تبدیلی ہوتی رہتی ہے اور اِن کثیر مقصدی ڈاکومنٹس میں بدلتے وقت کے بدلتے تقاضوں کیلئے اسپیس ضرور رکھنی چاہیے۔