مسلمانانِ دین ہر سال عیدالاضحیٰ کے روز 10 ذوالحجہ کو حضرت ابراہیمؑ کی سنت ادا کرتے ہوئے حلال جانور قربان کرتے ہیں اسی کو قربانی کہتے ہیں جو اللہ رب العزت کا محبوب ترین عمل ہے۔
زکوٰۃ کی حیثیت دینی اصطلاح میں اس عبادت کی ہے جو ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر اپنے مال کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد زکوٰۃ کے طور پر ادا کرنا فرض ہے جسے غربا، یتیم مسکین اور مستحقین کو ادا کیا جاتا ہے۔
نصاب سے مراد ہے وہ کم از کم دولت یا اثاثے جو آپ کے پاس ہوں، اس سے پہلے کہ آپ زکوٰۃ ادا کرنے یا قربانی کرنے کے اہل ہوں۔ ان کم از کم اعداد کو نصاب کی حد کہا جاتا ہے اور آپ اس کو عبور کرنے کے بعد ہی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔
مسلمانوں کو اس دن سے لے کر ایک قمری سال مکمل ہونے پر زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے جس دن ان کی دولت مخصوص حد سے تجاوز کر جائے۔
جس عاقل بالغ مسلمان کے پاس صرف سونا ہو (نقد رقم کے علاوہ) تو اس کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہے اور اگر چاندی ہے تو نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی ہے۔
اگر سونا اور چاندی دونوں الگ الگ کچھ مقدار میں ہوں، یا ان کے ساتھ مالِ تجارت یا نقدی ہو، یا صرف نقدی یا مالِ تجارت ہو تو ان سب صورتوں میں چاندی کے نصاب کو معیار بنایا جائے گا۔
یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی جو موجودہ قیمت بنتی ہے اس کے برابر یا اس سے زائد نقد رقم یا مال تجارت ہوتو اسے صاحب نصاب کہا جائے گا اور اس نصاب پر سال گزرنے پر زکوٰۃ لازم ہوگی۔
قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ مسلمان مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں واجب الادا اخراجات اور قرض ادا کرنے کے بعد ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زائد ہو (خواہ ضرورت سے زائد مال نقدی کی صورت میں ہو یا سونا چاندی ہو ،یا پھر کسی اور شکل میں ہو، اسی طرح مالِ تجارت نہ بھی ہو) تو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے، اور ایسے شخص کے لیے زکوٰۃ لینا بھی جائز نہیں ہے۔
زکوٰۃ واجب ہونے کے نصاب کی تفصیل یہ ہےکہ اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولے سونا، صرف چاندی ہو تو ساڑھے باون تولہ چاندی، یا دونوں میں سے کسی ایک کی مالیت کے برابر نقدی یا پھر سامانِ تجارت ہو، یا یہ سب ملا کر یا ان میں سے بعض ملا کر ٹوٹل مالیت چاندی کے نصاب کے برابر بنتی ہو تو ایسے شخص پر ایک سال پورا ہونے کے بعد قابلِ زکوٰۃ مال کا ڈھائی فی صد حصہ بطور زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے۔
قربانی اور زکوٰۃ واجب ہونے کے نصاب میں فرق یہ ہے کہ زکوٰۃ صرف اس مال پر فرض ہوتی ہے جو بڑھ سکتا ہے یعنی جو فروخت کیا جا سکتا ہے جیسے مالِ تجارت، یا مویشی، سونا چاندی اور نقدی۔
اس کے علاوہ مکان جو آپ کی ذاتی ملکیت میں ہو، دکان، گھر میں موجود برتن اور اس سے مشابہ قیمتی اشیا، فرنیچر، اور دوسرا گھریلو سامان، فیکٹری، کارخانے اور مشینیں، جیولری اور جواہرات خواہ کتنے ہی قیمتی ہوں اگر تجارت کے لیے نہ ہوں تو ان پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔
جب کہ قربانی اور صدقہ فطر، اور زکوٰۃ وصولی کے لیے غیر مستحق ہونے کے نصاب میں ان چیزوں کے ساتھ ضرورت و استعمال سے زائد سامان کو بھی ملایا جاتا ہے، مثلاً کسی کے پاس دو مکان ہیں، ایک رہائش کے لیے اور دوسرا بند ہے یا زیرِ استعمال نہیں، اور ضرورت سے زائد ہے تو قربانی کے نصاب میں اس کو بھی شامل کیا جائے گا، جبکہ زکوٰۃ کے نصاب میں اسے شامل نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح جو سامان استعمال میں نہ آتا ہو اس کا بھی یہی حکم ہوگا۔
دوسرا فرق یہ بھی ہے کہ قربانی واجب ہونےکے لیے اس نصاب پر سال گزرنا بھی شرط نہیں ہے، بلکہ عید الاضحٰی کے تیسرے دن کے غروب سے پہلے بھی صاحبِ نصاب ہوگیا تو اس پر قربانی کرنا واجب ہوگا، جب کہ زکات کی ادائیگی واجب ہونے کے لیے مالِ زکوٰۃ پر ایک سال گزرنا ضروری ہے۔
عید الاضحیٰ ہر سال منانے کے پیشِ نظر ہمیں کچھ ایسے مسائل یا سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو عام طور پر ہمارے ذہنوں میں جگہ نہیں لے پاتے لیکن ان مراحل سے گزرنے کے بعد توجہ اس جانب مبذول ہوتی ہے۔
قربانی کے جانور کی عمر کیا ہونی چاہیئے؟
قربان کیے جانے والے جانوروں میں بکرے کی عمر ایک سال، بیل اور گائے کی دو سال اور اونٹ کی پانچ سال عمر ہونا ضروری ہے۔
کن جانوروں کی قربانی جائز نہیں
نابینا، لنگڑا، بیمار یا لاغر جانور قربانی کے لیے جائز نہیں۔
بڑے جانور مثال کے طور پر بیل یا اونٹ کی قربانی میں سات افراد شریک ہو سکتے ہیں۔
قربانی کے گوشت کی تقسیم کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کیے جائیں۔ جن میں سے ایک حصہ فقرا و مساکین ، دوسرا رشتہ داروں، دوست احباب اور تیسرا گھر والوں کے لیے مختص کیا جائے۔
قربانی کے جانور کی کھال اور گوشت قصاب کو بطور اجرت (ذبح کرنے کی رقم کے طور پر) دینا جائز نہیں بلکہ اجرت الگ سے ادا کی جانی چاہیئے۔
جانور کی کھال ذاتی استعمال میں لائی جا سکتی ہے اگر جائے نماز بنانا چاہے، لیکن عمومی طور پر ایسا نہیں کیا جاتا۔
یہ کھالیں کسی بھی فلاحی ادارے کو فلاحی و دینی کام میں استعمال کے لیے دی جا سکتی ہیں یا محتاج، یتیم و مسکین افراد کو بطور عطیہ دی جا سکتی ہیں۔
شہر کی کسی بھی مسجد میں نمازِ عید ادا ہو جانے کے بعد قربانی کرنا جائز ہے۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ایک نئی ویب سائٹ…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)کی انتظامیہ نے شہریوں کو…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام کمرشل پلاٹس…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو پلاٹوں کی نیلامی…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام ہونے…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے وفاقی دارالحکومت میں…