دنیا جدت سے گزر رہی ہے۔ یہ جدت ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو بیش بہا ایسے مواقع فراہم کررہی ہے جس سے یہ سیکٹر اپنے آپ میں تبدیلی لا رہا ہے اور وہ بھی ایسے کہ اُس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ نئے مواقع اور نئے چیلنجز آ رہے ہیں۔
ہر شخص یہ کہتا دکھائی دے رہا ہے کہ ٹیکنالوجی فروغ پا رہی ہے اور دنیا کے ہر سیکٹر، ہر طبقے اور ہر حصے میں ایک انقلاب برپا ہورہاہے۔ جب وجہ پوچھی جائے تو سب ایک سوچ میں پڑنے کے بعد انٹرنیٹ کا نام لیتے ہیں کہ یہ سب اس لفظ کی وجہ سے ہورہاہے جس کی وجہ سے لوگ گویا زمان و مکان کی قید سے آزاد ہیں۔ انٹرنیٹ نے تمام انسانوں کو کمیونیکیشن کی فکروں سے آزادی دے دی ہے یعنی اب لوگوں کو کسی قسم کی کوئی ایسی ٹینشن نہیں کہ وہ جہاں ہیں بس وہیں کے ہو کر کام کریں گے اور اُن تک کسی کی رسائی آسان نہیں ہوگی۔
موبلیٹی کا دور
اب موبلیٹی کا دور ہے یعنی کسی کو یہ فکر لاحق نہیں ہے کہ آیا اگر وہ پاکستان میں ہے تو وہ امریکہ کے کسی فرم کے لیے کام نہیں کر سکتا یا وہاں پھیلی انفارمیشن ٹیکنالوجی سے مستفید نہیں ہوسکتا۔ آج کا دور انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ایک آزاد دور ہے یعنی کسی بھی طرح سے اِن دونوں پر کسی طرح سے کسی شخص یا ادارے کی حاکمیت نہیں اور ان میں سے ہر فیچر سے ہر شخص ہر طرح سے مستفید ہوسکتا ہے۔ اب معاملات کچھ یوں بھی ہوگئے ہیں کہ جو شخص اِن سے استفادہ نہیں کرتا وہ آج کے اس تیز ترین دور میں پیچھے رہ جاتا ہے۔
یوں سمجھیے کہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر جِسے عام طور پر ٹیکنالوجیز اڈاپٹ کرنے میں کافی آہستہ سمجھا جاتا ہے، آج کے دور میں اس سیکٹر نے بھی تمام تر جدتوں کا فائدہ اٹھانے میں خاصی تیزی دکھائی ہے۔ یہ تیزی اس سیکٹر کو کیسے تبدیل کررہی ہے اور آنے والے دور میں یہاں کس قسم کا سکہ رائج الوقت ہوگا، آج کی تحریر اس بارے میں ہے۔
ریئل اسٹیٹ سیکٹر کا جو منظر آج ہے، وہ آج کے بعد ایسا نہیں ہوگا۔ ٹیکنالوجیز کے استعمال سے یہاں یقیناً بہتری کا نظام ہے اور چونکہ آپ یہ تحریر گرانہ بلاگ پر پڑھ رہے ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پراپرٹی اور ٹیکنالوجی کے اس امتزاج نے پاکستان میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے پوٹینشل کے صحیح ادراک کی گویا ایک بنیاد رکھ دی ہے۔
پاکستان میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر کا حالیہ منظر
پاکستان میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے حالیہ منظر کی بات کریں تو سال 2030 تک پاکستان کی ضرورت 2 کروڑ سے زائد گھروں کی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جب سالانہ 10 لاکھ گھر بنانا شروع کیے جائیں گے تو ہر تیسرے سے چوتھے سال مُلک میں 60 لاکھ سے زائد نوکریاں پیدا ہوں گی۔ یوں اگر 2040 تک ہر سال تقریباً دس لاکھ گھر بھی بنائے جائیں تو بھی پاکستان کی محض 70 فیصد ہاؤسنگ ڈیمانڈ پوری ہوگی۔ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستان میں ہاؤسنگ کے لیے دنیا کی پر کیپیٹا ڈیمانڈ سب سے زیادہ ہے۔ گرانہ ڈاٹ کام کے سی ای او شفیق اکبر کے مطابق اگر ہم اگلے 20 سال میں 2 کروڑ ہاؤسنگ یونٹس کی تعمیر پوری کرلیں تو پاکستان کی معاشی ویلیو میں 1.5 ٹریلین سے 2 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوسکے گا۔
کاربن فٹ پرنٹ ریڈکشن
اسی طرح ٹیکنالوجی کا استعمال پاکستان کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر تو کیا، پوری دنیا کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے اصل پوٹینشل کے ادراک کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے ماحولیات کی حفاظت کا معاملہ انتہائی آسان ہوجائے گا۔ لوگ اسے کاربن فٹ پرنٹ ریڈکشن کا نام دیتے ہیں۔ ریئل اسٹیٹ ماحول کی تبدیلی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آنے والے دور میں انرجی افیشنسی کے لیے اقدامات لینے پر حکومتوں کی جانب سے حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ اسی طرح سے سیفر بلڈنگز کا بھی رجحان تیز ہوجائے گا۔ یعنی کورونا وبا کے بعد، جِسے عمومی اصطلاح میں پوسٹ کوویڈ ورلڈ کہتے ہیں، اُس میں آٹو میٹڈ سینیٹآئزشن پر، خود کار صفائی کے نظام پر، یو وی لائٹس کے استعمال پر اور ٹچ لیس انٹری پر اچھا خاصا انحصار ہوگا۔
بلاک چین ٹیکنالوجی کا فروغ
یونہی ٹیکنالوجی سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں بلاک چین کا بھی فروغ ہوگا۔ ماہرین کے مطابق بلاک چین ٹیکنالوجی میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی تبدیلی کا راز پنہاں ہے کیونکہ ڈیٹا ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی شہ رگ ہے۔
چونکہ ریئل اسٹیٹ میں انسانوں اور اُن کے ہاتھوں سے چلتے ڈیٹا کا کردار ہوتا ہے لہٰذا ایک ہی سورس سے ڈیٹا کا ٹرانسفر ہونا اور بلاکس میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ایک اہم سنگِ میل ہے۔ بلاک چین ٹیکنالوجی کے استعمال کی اچھی بات یہ بھی ہے کہ اس سے ڈیٹا کی تبدیلی اور چوری کا تاثر مکمل طور پر زائل ہوجاتا ہے لہٰذا لوگوں کا اس سیکٹر پر اعتبار اور ساتھ ہی ساتھ اُن کا اطمینان مزید بڑھے گا۔
مارکیٹنگ اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس
ٹھیک اسی طرح عالمی جریدہ فوربز یہ کہتا ہے کہ جائیداد کی خرید و فروش کا کھیل مزید دلچسپ تب ہوتا ہے جب اس میں مارکیٹنگ اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا کردار نمایاں ہوتا ہے۔ یہ جریدہ کہتا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے استعمال سے لوگ اس سیکٹر میں دھوکہ دہی اور فراڈ سے مکمل طور پر بچ سکیں گے اور بہتر فیصلہ سازی کے اہل ہوں گے کیونکہ پراپرٹی ویریفیکیشن کا معاملہ انتہائی آسان ہوجائے گا۔ اسی طرح مشین لرنگنگ کا بھی اس ضمن میں کردار کافی اہم ہے۔ مشین لرنگنگ سے اراضی کی لاگت کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے کہ جس سے مینوئل ڈیٹا کلیکشن اور اسپریڈ شیٹ معلومات سے چھٹکارا حاصل ہوجاتا ہے، جس سے لوگ یہاں رائج دروغ گوئی کے نظام کو ختم ہوتا دیکھیں گے۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کے لیے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ایک نئی ویب سائٹ…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)کی انتظامیہ نے شہریوں کو…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام کمرشل پلاٹس…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو پلاٹوں کی نیلامی…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام ہونے…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے وفاقی دارالحکومت میں…