فطرت کے مزاج پر افزائش پاتے پھول، پودے، جڑی بوٹیاں اور درخت زمانہ قدیم سے انسان کو متاثر کرتے آئے ہیں۔ قدرت سے قربت کے خواہاں انسان رب العزت کی ان خوبصورت اور رنگ برنگی نعمتوں سے اپنے گھروں اور باغیچوں کو سجاتے ہیں۔ وہ نہ صرف ان نعمتوں کا خیال رکھتے ہیں بلکہ ان سے باتیں کر کے اپنی دلچسپی اور شفقت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی بالکنیوں سے لےکر بڑے بڑے باغات ان نعمتوں سے آراستہ نظر آتے ہیں جن میں سے کچھ پھول اور پودے ایسے ہیں جو دنیا بھر میں ترجیحی بنیادوں پر لوگوں میں مقبول ہیں۔
چنبیلی کا پھول
چنبیلی کو پاکستان کے قومی پھول کا درجہ حاصل ہے۔ اسے قومی پھول کا درجہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں اس کی پیداوار کی وجہ سے دیا گیا جبکہ کچھ خیالات کے مطابق اس کے سفید اور سبز رنگ کی وجہ سے اسے قومی پھول کا درجہ دیا گیا تھا۔
چنبیلی کے پتے پورا سال ہرے بھرے رہتے ہیں۔ ان کی منفرد مہک سے دن اور رات کا ماحول معطر رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ چنبیلی کا پودا پاکستان کے ہر دوسرے گھر میں بہت شوق سے رکھا جاتا ہے۔ چاند کی چودہویں میں اس کی خوشبو اپنے عروج پر ہوتی ہے۔
گُلِ داؤدی
گلِ داؤدی کی پاکستان میں بےشمار اقسام ہیں۔ ان خوبصورت پھولوں کے رنگ گلابی، سفید، سرخ سے لے کر پیلے، نارنجی اور کچھ جامنی رنگ کے ہوتے ہیں۔
گلِ داؤدی کے پتوں سے چائے بھی بنائی جاتی ہے اور یہ خوبصورت پھول گھروں کی سجاوٹ اور جیولری بنانے میں بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔
گُلِ دوپہری
گملوں اور کیاریوں کے کناروں کیلئے سب سے سستا پھول فوٹولاکا ہے جسے گلِ دوپہری بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ پھول دوپہر میں کھِلتا ہے اور شام میں بند ہو جاتا ہے۔ گلابی، سرخ، سفید، پیلے اور نارنجی رنگ پھول اس کی خاصیت ہیں۔ یہ پودا زیادہ دھوپ لگنے پر زیادہ کھِلتا ہے۔
بہت سارے رنگوں میں کھِلنے والے پھول پنیری سے لگائے جاتے ہیں۔ پنیری وہ چھوٹے پودے ہوتےہیں جو بیج کے زریعے چھوٹے گملوں میں اُگا کر بڑی جگہ منتقل کیے جاتے ہیں۔
کنیر
اس پودے میں سخت گرمی برداشت کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ جسے زیادہ پانی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ جھاڑی نما پودا ہونے کی بناء پر یہ آسانی سے اُگایا جا سکتا ہے اور بآسانی کم قیمت پر دستیاب ہوتا ہے۔ کڑوے ذائقے کی بناء پر یہ جانوروں سے بچا رہتا ہے۔ باغیچوں اور کیاریوں میں اس کی باڑ لگا کر دوسرے پودوں کو محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔
گہرے سبز پتوں اور ٹہنیوں والا یہ پودا موسمِ سرما کے دوران گلابی، سرخ اور سفید پھول سے سجا رہتا ہے۔
رات کی رانی
رات کی رانی مسحور کُن خوشبو سے بھرپور وہ پودا ہے جو نہ صرف پورے گھر کو مہکا سکتا ہے بلکہ اس کے بہت سے طبی فوائد بھی ہیں۔ جن کی بدولت کھانسی، بخار، نزلہ زکام اور ڈپریشن، مرگی، ٹیومر اور شیٹکا جیسے مرض کا علاج ممکن ہے۔
جھاڑی نما اس پودے کو گملے میں بھی اُگایا جاسکتا ہے لیکن زمین پر اُگانے سے آپ کو زیادہ پھول ملیں گے۔
جھُمکا بیل
سرخ پھولوں کے جھرمٹ کے ساتھ یہ بیل پاکستان میں آسانی سے مل سکتی ہے۔ پاکستان کے علاوہ یہ ملائیشیا، ویت نام اور تھائی لینڈ میں بھی پایا جاتا ہے۔ یہ بیل 2.5 میٹر سے 8 میٹر تک زیادہ سے زیادہ اونچائی کی جانب بڑھ سکتی ہے۔ پھول خوشبودار جبکہ ان کا رنگ سفید، گلابی اور سرخ ہوتا ہے۔
پھولوں کا رنگ عمر کے ساتھ بدل جاتا ہے ۔ پودے کو جڑی بوٹیوں کی دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
گیندا، میری گولڈ
گیندا بلاشبہ ایک خوبصورت پھول ہے جو معتدل موسم میں افزائش پاتا ہے۔ سرخ گیندا گرمی میں بھی پھول پیدا کرتا ہے لیکن گیندے کی مختلف اقسام تقریباَ پورا سال پھول پیدا کرتی ہیں۔ سخت گرمی اس کے لیے کچھ حد تک نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
گیندے کے پھولوں کی مخصوص خوشبو مچھروں کو دور بھگانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس کی فصل سارا سال بھری ہوتی ہے جو صرف شدید موسم میں کم تعداد میں پیدا ہوتی ہے۔ زیادہ طلب کی بناء پر اسے وسیع پیمانے پر کاشت کیا جاتا ہے۔
یہ ایک اینٹی بائیوٹک پودا ہے جو جِلدی امراض کے لیے نہایت مفید ہے۔ اہم تقریبات میں اس کا استعمال زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔
گلاب
پھولوں کا ذکر ہو اور گلاب کی بات نہ ہو یہ ممکن نہیں۔ گلاب کی سو سے زائد اقسام ہیں اور یہ سب سے زیادہ خریدا جانے والا پھول ہے۔ اس کی مہک اور مسحور کن خوشبو کا کوئی مقابلہ نہیں۔ تہواروں اور خاص مواقع پر اس کی طلب میں اضافہ قیمت میں بھی اضافے کا باعث بنتی ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ درآمد اور برآمد کیا جانے والا پھول ہے۔ گلاب کی کاشت سخت گرمی والے مہینوں مئی اور جون کے علاوہ کسی بھی موسم میں کی جا سکتی ہے لیکن اکتوبر اور نومبر اسے اُگانے کے لیے بہترین مہینے ہیں۔
اس سے تیار شدہ عرقِ گلاب جِلد اور آنکھوں کے لیے نہایت مفید ہوتا ہے۔ گُلقند پان اورمختلف کھانے والی اشیاء میں پسند کیا جاتا ہے۔
گھروں کے اندر اُگائے جانے والے پودے
مَنی پلانٹ
مَنی پلانٹ ایسی آرائشی بیل ہے جو گھروں کے اندر لگائی جاتی ہے۔ اسے پانی اور مٹی دونوں میں لگایا جا سکتا ہے۔ یہ خوبصورت بیل تیزی سے پھیلتی ہے اور اس پر کوئی پھل یا پھول نہیں لگتا۔ یہ بیل گھر کے اندر موجود تمام مضرِ صحت گیسوں کو جذب کر کے ماحول کو صاف رکھتی ہے۔
سنیک پلانٹ
اس کے پتے سانپ کی مانند لمبے ہوتے ہیں۔ یہ پودا زہریلی گیسز کو صاف کر کے ماحول کو صاف و شفاف بناتا ہے ۔ اسے زیادہ مقدار میں پانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سنیک پلانٹ درجہ حرارت کو کم کر کے ماحول کو ٹھنڈک فراہم کرتا ہے اور کم روشنی میں بھی ہرا بھرا رہتا ہے۔
ربڑ پلانٹ
یہ پودا اپنے منفرد پتوں کی بناء پر سب کی توجہ کا باعث بنتا ہے اور انڈور پودوں میں اسے بہت پسند کیا جاتا ہے۔ یہ گرمی کے موسم میں ماحول کے درجہ حرارت کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اسے سورج کی روشنی اور زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ان پودوں کے علاوہ اندرونی پودوں کی اور بھی بہت اقسام ہیں جو پسند کی جاتی ہیں اور جنھیں گھر کے اندرونی حصوں میں سجایا جاتا ہے۔
گھر میں باغبانی کے لیے ضروری احتیاط
باغبانی کا شوق رکھنے والے افراد گھر میں پودےاور پھول لگانے کے خواہشمند ہوتے ہیں جس کے لیے انھیں کچھ احتیاطی تدابیر مدِ نظر رکھنی چاہئیں۔
پودے لگانے کے لیے جس مقام کا انتخاب کیا جائے وہاں 4 سے 5 گھنٹے دھوپ رہنی چاہیئے۔ پانی کی دستیابی وافر مقدار میں ہو۔ پودوں کی افزائش کے لیے زمین کا زرخیز ہونا بہت ضروری ہے بصورتِ دیگر کھاد کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان بھر میں مذکورہ بالا پودوں کے علاوہ اَن گنت پودے اور پھول ایسے ہیں جنھیں پسند کیاجاتا ہے۔ گھروں اور باغیچوں کی زینت میں اضافہ قدرت کی اِن حسین رعنائیوں کی بدولت ہی ممکن ہے۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔