پورٹ قاسم جو کہ ماضی بعید میں محمد بن قاسم بندرگاہ کے نام سے بھی اپنی ایک منفرد پہچان رکھتی ہے، ملک کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے جو ملکی معیشت میں کلیدی اہمیت کے حامل زرِ مبادلہ کے حصول میں سمندری راستے سے کُل تجارت کا 51 فیصد حصہ یقینی بنا رہی ہے۔
آج کی اپنی اس تحریر میں ہم اپنے قارئین کے ساتھ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ پورٹ قاسم سے متعلق چند مفید معلومات کا تبادلہ کریں گے کہ مذکورہ بندرگاہ ملک میں تجارتی سرگرمیوں کے فروغ میں کیا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس بندرگاہ کے ساتھ براہِ راست منسلک تجارتی سرگرمیوں سے متعلق کچھ اہم سوالات اور ان کے جوابات کا تذکرہ بھی یہاں آج کی تحریر میں شامل ہے۔
تو چلیے! شروع کرتے ہیں۔
پورٹ قاسم کا قیام کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
پورٹ قاسم 29 جون 1973 کو پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے ذریعے قائم کی گئی تھی۔ یہ کراچی کے انڈس ڈیلٹا خطے کی پھٹی کریک میں واقع ہے۔ بندرگاہ نے 1980 میں پاکستان اسٹیل مل کے خام مال کی درآمدات کی بڑے پیمانے پر ہینڈلنگ کے لیے ایک خاص قسم کے لوہے کے کول برتھ کی مدد سے مشترکہ بنیادوں پر کام کا آغاز کیا۔ پورٹ قاسم میں میں اس وقت 18 برتھیں ہیں جن کی سالانہ ہینڈلنگ کی گنجائش 89 ملین ٹن ہے۔ معدنیات کے آئل، خوردنی تیل، کوئلہ، چاول، گندم، سیمنٹ سے لے کر کھاد، جنرل کارگو، کنٹینرز اور ایل این جی تک کے تمام تجارتی سامان اور اشیاء بندرگاہ میں جدید ترین ٹرمینلز پر ہینڈل کی جا رہی ہیں۔ یہ توانائی کا مرکز اور پاکستان کا واحد ایل این جی پورٹ ہے۔
پورٹ قاسم کا حدود اربع
پورٹ قاسم تمام ذرائع نقل و حمل کے ذریعے کراچی سے ملک کے دیگر تجارتی مراکز سے مکمل طور پر منسلک ہے۔ یہ قومی شاہراہ کراچی نیشنل ہائی وے، کوسٹل ہائی وے سے ہوتی ہوئی افغانستان کی طرف جانے والے موٹروے نیٹ ورک اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کے راستوں سے دیگر ممالک کو براہِ راست خدمات کی فراہمی یقینی بنا رہی ہے۔
یہ بندرگاہ قومی ریلوے نیٹ ورک سے 14 کلومیٹر طویل ریلوے لائن اور وقف شدہ ریلوے اسٹیشن کے ذریعے بھی منسلک ہے جبکہ پورٹ قاسم پورا ہفتہ 24 گھنٹے اپنی خدمات کی فراہمی یقینی بنانے میں دیگر بندرگاہوں کی نسبت ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔
پورٹ قاسم 15474 ایکڑ پر پھیلا ہوا پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی زون ہے۔ اس میں 400 سے زیادہ صنعتی/ تجارتی یونٹ کام کر رہے ہیں۔ اس کے صنعتی زونز میں تقریباً 3000 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ پورٹ قاسم پاکستان کی قومی معیشت کے سب سے بڑے شراکتی اداروں میں سے ایک ہے جو اس کی کُل سمندری تجارت کا 51 فیصد حصہ سنبھالتی ہے اور بندرگاہ کے آپریشن کے تمام پہلوؤں میں اس کی شرح نمو 5 فیصد سے زائد ہے۔ پورٹ قاسم نے گذشتہ مالی سال کے دوران 8 ارب روپے سے زائد رقم کے ٹیکس ادا کیے اور پورٹ ٹرمینلز سے ڈیوٹیز کی وصولی 800 ارب روپے سے زائد ریکارڈ کی گئی۔
پورٹ قاسم اتھارٹی میں شپنگ ایجنٹ کے طور پر کیسے رجسٹر ہوں؟
پورٹ قاسم اتھارٹی میں شپنگ ایجنٹ کے طور پر رجسٹریشن کے لیے بنیادی طور پر مندرجہ ذیل کوائف جمع کرانے انتہائی ضروری ہیں۔
ڈپٹی کمشنر پی کیو اے کے نام رجسٹریشن کے لیے درخواست یا خَط
ایس ای سی پی سے کمپنی کی رجسٹریشن کے بعد حاصل کردہ میمورنڈم اینڈ ایسوسی ایشن کا دستاویز
کسٹم ایجنٹ کا لائسنس
نینشل ٹیکس نمبر کا سرٹیفکیٹ
کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کی ایک عدد نقل
لینڈنگ کی تاریخ سے کیا مراد ہے؟
لینڈنگ کی تاریخ تمام درآمدی یا برآمدی اشیاء کی کنٹیںر سے باہر اَن لوڈ کرنے یا اشیاء کو کنٹیر میں پیک کرنے کی تاریخ کو کہا جاتا ہے۔
برآمدات پر ڈیمریج یا جرمانہ کب عائد ہوتا ہے؟
برآمدی اشیاء پر مشتمل تجارتی سامان بندرگاہ پر جمع کروانے کے 10 دن کے بعد سامان پر ڈیمریج یا جرمانہ عائد ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ ڈیمریج روزانہ کی بنیاد پر چارج کیا جاتا ہے۔
درآمدات پر ڈیمریج یا جرمانہ کب عائد ہوتا ہے؟
درآمدی اشیاء پر مشتمل تجارتی سامان بندرگاہ پر پہنچنے اور کنٹینر اَن لوڈ ہونے کے 5 دن کے اندر اگر سامان پورٹ سے نہ اٹھایا جائے تو اس پر ڈیمریج چارج ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ ڈیمریج روزانہ کی بنیاد پر چارج کیا جاتا ہے۔
درآمدی کارگو کی صورت میں پی کیو اے کو کون سے دستاویزات مطلوب ہوتے ہیں؟
پورٹ قاسم اتھارٹی کو درآمدی کارگو کے لیے ایسے کسی خاص دستاویز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تاہم محکمہ مال کی جانب سے صرف ویرفیج اور سامان کے وزن کے چالان کی رسید مطلوب ہوتی ہے۔
ایکسپورٹ شپنگ آرڈر سے کیا مراد ہے؟
ایکسپورٹ شپنگ آرڈر ایک ایسا اہم دستاویز ہے جو کارگو ڈیپارٹمنٹ برآمدی سامان کے لیے تیار کرتا ہے تاکہ آپ بآسانی اپنے برآمدی سامان کی پہچان اور تصدیق کر سکیں۔ یعنی ویرفیج اور سامان کے وزن کے چالان کی رسید کی ایکسپورٹ شپنگ آرڈر کے ذریعے ہی پورٹ قاسم اتھارٹی کا ریونیو ڈپارٹمنٹ توثیق کرتا ہے اور بعد ازاں سامان کے لیے برتھ کی الاٹمنٹ کی جاتی ہے۔
سامان کی چوری / نقصان کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟
برآمدی یا درآمدی سامان کی چوری یا کسی قسم کے نقصان کی صورت میں تمام معاملات کلائنٹ اور کارگو ہینڈلنگ کمپنی کے مابین براہِ راست طے پاتے ہیں۔ اس میں پورٹ قاسم اتھارٹی کی براہِ راست کوئی مداخلت شامل نہیں ہوتی۔
کارگو کی دیکھ بھال کے لیے کون سا ادارہ ذمہ دار ہے؟
بندرگاہ پر بیرونِ ملک بھیجے جانے اور اندرونِ ملک موصول ہونے والے تجارتی سامان کی دیکھ بھال کی تمام تر ذمہ داری کارگو ہینڈلنگ کمپنیوں پر عائد ہوتی ہے۔ یہ کمپنیاں آپ سے مختصر رقم سروس چارجز کی مد میں وصول کرنے کے بعد تجارتی سامان اپنی تحویل میں لے لیتی ہیں اور اِس کے بعد کارگو کی حفاظت کی تمام تر ذمہ داری اُس متعلقہ کمپنی پر عائد ہوتی ہے جس کی خدمات آپ نے کارگو ہینڈلنگ کے لیے حاصل کر رکھی ہیں۔
ہینڈلنگ چارجز کی ادائیگی کا طریقہ کار کیا ہے؟
کلائنٹ اور کارگو ہینڈلنگ کمپنی کے مابین کاروباری معاملات پر گفت و شنید کے بعد کارگو پر فی ٹن وزن کے حساب سے کارگو ہینڈلنگ چارجز براہِ راست کمپنی کو ادا کیے جاتے ہیں تاہم طے شدہ شرائط و ضوابط کو ملحوظِ خاطر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
پورٹ قاسم میں دستیاب سہولیات پر ایک نظر
پورٹ قاسم اتھارٹی بنیادی طور پر تجارتی سرگرمیوں سے متعلق خدمات کی فراہمی کا ایک اہم ملکی ادارہ ہے۔ یہ بندرگاہ بین الاقوامی شپنگ لائنوں اور دیگر متعلقہ ایجنسیوں کو ساحل پر دستیاب سہولیات اور خدمات فراہم کرتی ہے جس میں چینل میں پانی کی مناسب گہرائی، برتھ/ٹرمینلز، سامان کی کارگو ہینڈلنگ، گودام سمیت بحری جہازوں کی 24 گھنٹے کی محفوظ آمدورفت اور بحری جہاز کے لنگر انداز ہونے کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
تاریخ کے اوراق سے پورٹ قاسم کا مختصر جائزہ
بندرگاہ محمد بن قاسم یا پورٹ قاسم صوبہ سندھ کے دارالخلافہ کراچی میں ایک گہرے پانی کی بندرگاہ ہے جو کہ بحیرہ عرب کی ساحلی پٹی پر حکومت پاکستان کے سیکرٹری برائے سمندری اُمور کے انتظامی کنٹرول میں کام کرتی ہے۔ یہ پاکستان کی دوسری مصروف ترین بندرگاہ ہے جو ملک کے تقریباً 51 فیصد یعنی 35 ملین ٹن سالانہ کارگو کو ہینڈل کرتی ہے۔ جبکہ پورٹ قاسم اور کراچی پورٹ دونوں مل کر پاکستان کی تمام بیرونی تجارت کا 90 فیصد سے زیادہ ہینڈل کرتی ہیں۔
پورٹ قاسم میں توسیع کے بے پناہ امکانات اور مواقع موجود ہیں۔ مرکزی نیوی گیشنل چینل کو گہرا اور مزید چوڑا کرنے کے علاوہ 26 کلومیٹر مین ایکسَس روڈ کو دو رویہ بنانا، موجودہ انڈسٹریل ویسٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ کی اپ گریڈیشن اور ایک اور کمبائنڈ ایفلوئنٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تعمیر بھی پورٹ قاسم کے توسیعی منصوبے میں شامل ہیں۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ