اس حقیقت سے انکار نہیں کہ قدرتی نعمتیں انسان اور اس کی صحت کے لیے خزانے کی مانند ہیں۔ اسی لیے یہ مشہورہے کہ ’تندرستی ہزار نعمت ہے‘ اور جان ہے تو جہان ہے‘۔
ہم انسانوں کا رہن سہن جتنا مشینی اور تیز تر ہو رہا ہے ہم گاہے بگاہے قدرت سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم نے اپنے ارد گرد عمارتوں، فیکٹریوں اور مشینوں کے پہاڑ کھڑے کر لیے ہیں۔
یہی وجہ ہےکہ چلتی سانس صحت بخش اثرات سے محروم ہو گئی ہے۔ اور ہر شخص ایک روبوٹ کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
مشین میں ہونے والی خرابی کا پتہ ہمیں تب چلتا ہےجب وہ کام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ لیکن اپنے اندر ہونے والی تبدیلیوں، احساسات اور بگاڑ کو ہم یکسر نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ اور ڈاکٹر کی جانب تب بھاگتے ہیں جب بات سمجھ سے باہر ہو چکی ہوتی ہے۔
چوبیس گھنٹوں میں سے اگر چند گھٹے ہم ایسے مقامات پر گزاریں یا ہماری رہائش ایسے علاقوں میں ہو جہاں کی آب و ہوا صاف ستھری اور صحت بخش ہو تو بہت سے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔ اور وہ جگہیں ہیں ایسے سبز مقامات جہاں پر وقت گزارنے اور رہنے کی افادیت کا اندازہ مشینی دور کا انسان شاید کم ہی لگا سکتا ہے۔
شہروں میں سبز جگہوں کی اقسام
اگرچہ شہروں میں سبز جگہوں کی بے شمار مثالیں ہو سکتی ہیں، لیکن عام طور پر دو بنیادی مقامات ہیں جن میں عوامی اور نجی جگہیں شامل ہیں۔ پارک، باغات، گرین بیلٹس، درخت اور پودے وغیرہ۔
پاکستان میں سبز جگہوں کی کچھ اہم ترین اقسام پر نظر ڈالتے ہیں۔
تفریحی پارکس اور باغات
سیر و تفریح کے لیے ڈیزائن کیے گئے پارکس اور باغات اکثر کسی بھی رہائشی کمیونٹی کا سب سے قیمتی حصہ ہوتے ہیں۔ گھاس والی زمین اور لمبے لمبے سجاوٹی درختوں کے علاوہ، یہ کھلی جگہیں زیادہ تر پیدل چلنے کے راستوں یا جاگنگ ایریاز، سائیکلنگ لین، لکڑی کے بنچوں، پھول، جھولوں اور سلائیڈوں پر مشتمل بچوں کے کھیل کے میدان سے جڑی ہوتی ہیں۔ کچھ بڑے پارکوں میں تالاب یا فوارے بھی ہو سکتے ہیں، جو ان کی جمالیاتی کشش کو مزید بڑھاتے ہیں۔
بہت سے گھریلو خریدار پارک کے قریب رہنے کے لیے اضافی ادائیگی کرتے ہیں تاکہ ان کے اہل خانہ کچھ تازہ ہوا سے لطف اندوز ہو سکیں اور ایک محفوظ ماحول میں ایک ساتھ معیاری وقت گزار سکیں۔ یہ جگہیں سماجی ہم آہنگی کو بھی تقویت دیتی ہیں اور کمیونٹی کے جذبے کو پروان چڑھاتی ہیں، کیونکہ یہ ان چند جگہوں میں سے ہیں جہاں ایک ہی محلے میں رہنے والے لوگ آسانی سے مل سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے مشغولاتِ زندگی میں شریک ہو سکتےہیں۔
شجر کاری
پاکستان میں شجر کاری کی مختلف مہم جوئی کی بدولت ملک بھر میں شہری جنگلات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے اقدامات ماحول اور انسان کی صحت کے لیے نہایت ضروری ہیں۔
مزید براں، یہ پرندوں، کیڑے مکوڑوں اور چھوٹے جانوروں کی مختلف اقسام کی نشونما اور خوراک کے حصول کا سبب بھی بنتا ہے۔
قومی پارکس اور سبز مقامات
نیشنل پارک عام طور پر دیہی علاقوں یا شہر کی حدود سے باہر واقع ہوتے ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر عوامی تفریح کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے پارکس سیکٹرز اور بلاکس میں بھی بنائے جاتے ہیں۔ تاکہ قریبی رہائشی لوگ ان سے مستفید ہو سکیں۔
شہری ہریالی
گرین بیلٹس، سڑک کے کنارے سبزیاں، اور فرش کے اوپر لگے درخت عام طور پر شہری ہریالی کے زمرے میں آتے ہیں۔
جیسے جیسے پائیدار طرز زندگی اور ماحول دوست تعمیراتی طریقوں کے بارے میں بات چیت زور پکڑتی جا رہی ہے۔ کئی شہروں میں مقامی حکام نے پاکستان میں سبز مقامات کے فروغ کے لیے نئے اقدامات کیے ہیں۔
سبز مقامات کیوں اہم ہیں؟
یہاں شہروں میں سبز جگہوں کے سب سے بڑے فائدے ہیں جن کے بارے میں سب کو معلوم ہونا چاہیے۔
طویل مدتی صحت
ہر عمر کے لوگوں میں دل اور سانس کی خرابی کی حالتوں کے ساتھ ساتھ، فضائی آلودگی بھی شدید درجہ حرارت اور گرمی کی لہروں کا باعث بنتی ہے۔ جس کے باعث پانی کی کمی اور سَن سٹروک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تاہم، چونکہ درخت اور پودے ہوا سے آلودگی کو ہٹا کر اور ماحول میں آکسیجن چھوڑ کر فضائی آلودگی کو کم کر سکتے ہیں۔ اس لیے سبز مقامات شہری علاقوں میں رہنے والوں کے لیے صحت مند اور طویل زندگی کو یقینی بنا سکتا ہے۔
اسی طرح، پارکس اور کھلی جگہیں لوگوں کو زیادہ جسمانی سرگرمیوں میں مشغول ہونے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ جیسے پیدل چلنا اور سائیکل چلانا۔
چونکہ جسمانی غیرفعالیت بیماریوں کے ایک بڑے خطرے کے عوامل میں سے ایک ہے۔ اس لیے سبز جگہوں تک رسائی ایک سے زیادہ طریقوں سے جانیں بچا سکتی ہے۔
لہذا، مقامی کمیونٹی کی صحت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ آب و ہوا کے سب سے بڑے بحران سے نمٹنے کے لیے مزید پارکس اور باغات کا قیام ایک مؤثر طریقہ ہو سکتا ہے۔
صاف شفاف آب و ہوا
فضائی آلودگی شہروں میں سبز جگہوں کی کمی کے سبب اہم اثرات میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ ماحول میں زہریلی گیسیں نہ صرف انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ بلکہ قدرتی ماحولیاتی نظام کو بھی تباہ کر رہی ہیں۔
ہوا کے کم معیار کی سب سے بڑی وجہ گاڑیوں، کیمیکل پلانٹس، صنعتی بوائلرز اور ریفائنریوں کے ذریعے فضا میں خطرناک گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔
تاہم، درخت ان گیسوں کے مضر اثرات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اور ہوا کے معیار کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس طرح لوگوں کے لیے طویل عرصے تک چلنے والی طبی حالتوں کے بغیر سانس لینا زیادہ محفوظ ہو جاتا ہے۔
شہری علاقوں میں سبز جگہوں میں اضافہ درجہ حرارت کو بھی کنٹرول کر سکتا ہے۔ جس سے ایئر کنڈیشنگ کی ڈیمانڈ کم ہو سکتی ہے۔
اس لیے، اپنے ارد گرد سبزہ اور سبز مقامات کی خواہش کرنے والوں کا فرض ہے۔ کہ وہ انفرادی طور پر بھی اپنے ارد گرد پودوں، گھاس اور درخت اگانے میں کردار ادا کریں۔
منظم درجہ حرارت
بلاشبہ پاکستان میں گرمیاں اب طویل مدتی ہوتی ہیں۔ سخت سردی کے مہینوں میں اب صرف دسمبر، جنوری اور فروری کو ہی گِنا جاتا ہے۔
اگرچہ دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے لیے موسمیاتی تبدیلی بڑی حد تک ذمہ دار ہے۔ لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے۔ کہ دیہی علاقوں کے مقابلے شہری علاقوں میں گرمیاں کافی زیادہ ہونے کی ایک اہم وجہ سبز جگہوں کی کمی ہے۔
سیلاب اور آلودہ پانی کی روک تھام
شہری علاقوں کی مٹی اور پودے ضرورت سے زیادہ پانی کو سڑکوں اور شہری انفراسٹرکچر میں سیلاب آنے دینے کے بجائے وسائل میں بدل سکتے ہیں۔
مزید برآں، شہروں میں سبز جگہیں مقامی پانی کی فراہمی کی مقدار کو بڑھانے میں مدد کر سکتی ہیں۔
بہترین دماغی صحت
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ شہری پارکوں اور کھیل کے میدانوں تک رسائی جسمانی صحت کے لیے اچھی ہے۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ ہم ذہنی صحت کے لیے سبز جگہوں کی اہمیت کو اجاگر کریں۔
پارکس، باغات اور خوبصورت مناظر والے علاقے نہ صرف علاقوں اور مقامات کی جمالیات میں اضافہ کرتے ہیں۔ بلکہ پر سکون ماحول پیدا کر کے مکینوں میں ذہنی تناؤ کو بھی کم کرتے ہیں۔ محققین کے مطابق تناؤ اور جارحیت کے ساتھ جدوجہد کرنے والے افراد عام طور پر قدرتی ماحول میں کچھ وقت گزارنے کے بعد بہتر محسوس کرتے ہیں۔
مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ جو لوگ فطرت سے گھرے ہوئے ماحول میں زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ ان کے لیے اپنے قریبی ماحول پر بھی توجہ مرکوز کرنا آسان معلوم ہوتا ہے۔
اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا۔ کہ سبز بنیادی ڈھانچہ مقامی کمیونٹی کی ذہنی اور جسمانی صحت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ وہ لوگ جو خود کو دباؤ یا تناؤ میں پاتے ہیں۔ وہ صبح یا شام میں کچھ گھنٹے کسی سایہ دار علاقے میں باہر چہل قدمی کے لیے وقف کر سکتے ہیں۔ یا کسی مقامی پارک میں کچھ وقت گزار سکتے ہیں۔ جہاں وہ آرام کر سکتے ہیں اور تازہ ہوا سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
سماجی ہم آہنگی
شہروں میں مختلف قسم کی سبز جگہیں کمیونٹی میں رہنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتی ہیں۔ اس طرح ایسے مقامات سماجی ہم آہنگی کو جنم دیتے ہیں۔
بدقسمتی سے، ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے دنوں کا بہتر حصہ ٹریفک جام میں پھنسے، ہجوم کے درمیان چلنے اور آلودہ ہوا میں سانس لینے میں گزارتے ہیں۔
یہ عوامل، دائمی تناؤ اور ناکافی جسمانی سرگرمی کے ساتھ، بہت سے افراد کو اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ سماجی بندھن بنانے کے لیے بمشکل پیدا کرتے ہیں۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔