ماحولیاتی تبدیلی جس تیزی سے ہم پر اثر انداز ہورہی ہے ہم سب جانتے ہیں، یعنی اُن اثرات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق زمین اگلی تین دہائیوں میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ گرم ہوجائیگی۔ حیرت کی بات مگر یہ ہے کہ چند ماہ پہلے اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں یہی عرصہ لگ بھگ 50 سال کا تھا۔ یہ رپورٹ یہ سمجھنے اور سمجھانے کو کافی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کیلئے کس قدر سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
کہتے ہیں کہ تبدیلی کے سفر کا آغاز ہمیشہ اپنی ذات سے کرنا چاہیے۔ آج کے دن اپنے آپ سے پوچھنے والے چند ایک اہم ترین سوالات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ زمینی آب و ہوا کی بہتری کیلئے اپنی ذات کی حد تک کیا کررہے ہیں؟ کیا آپ گندگی پھیلانے والوں میں سے ہیں یا پھر اُسے صاف کرنے والوں میں سے؟ کیا آپ اُن لوگوں میں سے ہیں جو صرف صفائی نصف ایمان ہے کو کہنے اور سننے کی حد تک لیتے ہیں یا پھر اُس کا عملی مظاہرہ بھی کرتے ہیں؟ کیا آپ کا گھر، جہاں آپ رہائش پذیر ہیں، اگر کوئی باہر سے آکر دیکھے تو وہ آپ کی شخصیت کے بارے میں یہ تاثر لے کر جائیگا کہ آپ ایک ستھری اور سلجھی شخصیت کے حامل ہیں یا پھر آپ نکھار اور صفائی سے دور دور رہتے ہیں؟ کیا آپ کا گھر ایکو فرینڈلی یعنی ماحول دوست ہے یا آپ بھی ماحولیاتی تبدیلی کے موضوع کو کسی دور کے ڈھول کی طرح محض پرائی ذات کا دکھ سمجھتے ہیں کہ جس کا آپ کی ذات سے کوئی لینا دینا نہیں؟
اگر آپ کا گھر ماحول دوست ہے تو آپ اس ضمن میں شاباش کے مستحق ہیں کہ آپ ماحولیات پر اپنے غلط اثر کو کسی نہ کسی صورت کم کرنے کی کوشش ضرور کررہے ہیں۔ اگر آپ کا گھر ایکو فرینڈلی نہیں ہے تو آپ کو کوشش یہ کرنی ہے کہ اس تحریر میں درج چند مشوروں پر عمل ضرور کریں تاکہ آپ کی صحت پر بھی ایک اچھا اثر پڑے اور آپ اگلی نسلوں کو صحت مند بریڈنگ گراؤنڈ دینے والوں میں شامل ہوں۔ یہ بات مگر ذہن نشین کرلیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کے پیشِ نظر ایکو فرینڈلی گھروں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
انرجی ایفیشنٹ لائٹ بلب کا استعمال
کوشش یہ کرنی ہے کہ جتنا کم ہوسکے اُتنا بجلی و دیگر وسائل کا استعمال کرنا ہے۔ اس ضمن میں کم توانائی خرچ کرنے والے آلات کا استعمال ضروری ہے۔ انرجی ایفیشنٹ یعنی کم توانائی خرچ کرنے والے لائٹ بلب کا استعمال آپ کے گھر کی کُل توانائی کے خرچ کو آدھا کردیگا۔ اس سے نہ صرف آپ کے بجلی کے بل پر ایک خوشگوار فرق پڑےگا بلکہ آپ بھی کم توانائی استعمال کرنے والوں یعنی زمینی وسائل کا کم استعمال کرنے والوں میں شامل ہوجائینگے۔ انسانی آبادی جس تیزی اور تناسب سے بڑھ رہی ہے، زمین پر اتنے وسائل پیدا کرنے کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں ہمیں چاہیے کہ کم توانائی کے خرچ کو طریقِ زندگی بنائیں تاکہ زمین اور قدرتی ریسورسز پر ہماری زندگی کے رفتار سے قدم ملانے میں زیادہ بوجھ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
گھروں پر سولر پینلز کا استعمال
گھروں پر سولر پینلز کا استعمال اس ضمن میں بہت ضروری ہے۔ آجکل پاور جنریشن کا یہ طریقہ انتہائی مقبول ہے۔ سولر پینلز دن بھر میسر شمسی توانائی کو اپنے اندر جمع کرتے ہیں اور اسی توانائی سے آپ کے گھر کے برقی آلات کو پاور ملا کرتی ہے۔ اگر آپ مکمل طور پر سولر پینلز پر منتقل ہوجائیں تو بجلی کے یونٹس کے استعمال اور بجلی کی قیمتوں کے بڑھنے کی فکر سے آپ کی جان مکمل طور پر چھوٹ جائیگی۔ اور تو اور آپ کو یہ فکر بھی نہیں ہوگی کہ آیا آپ کے علاقے میں بجلی ہے یا نہیں۔ مانا کہ سولر پینلز ایک ہی وقت میں ایک بڑی انویسٹمنٹ ہے یعنی انکی لاگت زیادہ ہے مگر طویل مدتی بنیادوں پر یہ آپ کے لیے سکون اور راحت کا سامان ثابت ہونگے۔
صفائی کے دوران خاص خیال رکھیں
صفائی کے دوران خصوصی خیال اس بات کا رکھیں کہ آپ استعمال شدہ پلاسٹک کوڑے دان میں نہ پھینکیں۔ آجکل جگہ جگہ ری سائکلنگ فیکٹریز اور آؤٹ لیٹس ہیں جہاں ہم استعمال شدہ پلاسٹ جمع کروا کر اُسے ری سائیکل کرسکتے ہیں۔ جب ری سائیکل پراڈکٹس کا استعمال بڑھے گا تو فیکٹریوں پر اُسی تعداد میں وہی پراڈکٹ بنانے کا پریشر کم ہوگا۔ اس کا مطلب یہ کہ زمینی وسائل، توانائی کا استعمال کم ہوگا اور ماحولیات پر منفی اثر بھی۔ پلاسٹک ویسٹ ماحولیاتی تبدیلی کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ صفائی کے دوران کوشش کریں کہ وہ کیمیکلز ڈرین میں نہ بہائیں جن کو آگے چل کر نہروں اور دریاؤں میں بہہ جانا ہے جہاں وہ آبی حیات کے نقصان کا باعث بنیں۔ اپنے گھر میں یہ اصول بنا لیں کہ پلاسٹک کا استعمال ترک کرنا ہے۔ کپڑے کے بیگ بنا کر اُسی میں روز مرہ کی اشیاء کی پیکنگ کیا کریں۔ اسی طرح سے فالتو بلب، پنکھے اور غیر ضروری ایئر کنڈیشن جہاں نظر آئے بند کردیں۔
پانی کا کم استعمال
عالمی جریدے فوربز کا کہنا ہے کہ پانی کرہ ارض کا 71 فیصد بنتا ہے۔ اس 71 فیصد کا محض 3 فیصد وہ پانی ہے جو انسان کے استعمال کے قابل ہے۔ اُس 3 فیصد کا ایک بڑا حصہ یعنی 2.5 فیصد ہمیں دستیاب ہی نہیں ہے یعنی وہ گلیشیرز اور آئس کیپس میں بند ہے اور کچھ زیرِ زمین ہے۔ کچھ ہوا میں نمی کی شکل میں اپنے سائیکل میں قید ہے۔ یوں سمجھیں کہ دنیا میں ہم 7 ارب انسانوں کے لیے محض 0.5 فیصد پانی بچتا ہے اور اُسے بھی ہم ضایع کررہے ہیں اور ماحولیاتی گندگی کے باعث اُس کی صحت کے درپے ہیں۔ ہماری ماڈرن طرزِ زندگی میں پانی کے بچاؤ پر خصوصی توجہ ہونی چاہیے تھی۔ بدقسمتی کی بات مگر یہ ہے کہ اُتنا ہی پانی ضایع ہورہا ہے۔ واش رومز میں نصب نئے اقسام کے نلکے، ہمارے شاورز سے پانی تیز بہتا ہے اور ہم ضرورت سے زیادہ پانی یونہی بہا دیتے ہیں۔ گھروں پر ٹینکیاں بھرنے کی ضرورت کیلئے موٹرز کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ چند لمحوں میں ٹینک بھر دیتے ہیں، پھر پانی بہتا چلا جاتا ہے، اور ہم موٹر کا سوئچ آف کرنے میں دیر کردیتے ہیں۔ یاد رہے کہ فریش واٹر ایک انتہائی انمول ریسورس ہے۔ اس کے بچاؤ کی راہ اختیار کرنا ہماری اپنی زندگیوں کے لیے اہم ہے۔
گھروں میں شجر کاری کا رجحان
گھر میں سبزے کی اہمیت سے انکار نہیں۔ گھر کے دالان میں دو سے تین درخت ضرور لگائیں۔ یہ ہوا سے کاربن ایمیشن یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے اُسے آکسیجن سے سرشار کرتے ہیں اور انسانی زندگی کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ سورج کی حرارت کو بھی جذب کر کے اپنے پتوں اور سائے سے ارد گرد کی ہوا کو ٹھنڈا رکھتے ہیں۔ درخت آب و ہوا کی صفائی کا باعث بھی بنتے ہیں، چرند پرند کا مستقل مسکن بھی ہوتے ہیں اور ان سے دواؤں کی 25 فیصد تک اقسام کا بندوبست بھی ہوتا ہے۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کے لیے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ایک نئی ویب سائٹ…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)کی انتظامیہ نے شہریوں کو…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام کمرشل پلاٹس…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو پلاٹوں کی نیلامی…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام ہونے…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے وفاقی دارالحکومت میں…