سمندر کی لہریں جب ساحل سے ٹکرا کر واپس جاتی ہیں تو پیروں کے نیچے سے ریت بھی سرکتی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خود کو سرکش لہروں کے حوالے کر دیں اور ڈوب جائیں۔ انسان جب بھی کسی مصیبت سے گزرتا ہے تو بظاہر نقصان کے علاوہ ایک اَن دیکھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے۔ غم اور نقصان کی شدت کے مطابق اسے دوبارہ خوشحال ہونے اور اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے میں مطلوبہ وقت لگتا ہے۔ عمر اور سمجھ بوجھ کے مطابق ہر انسان کا غم ایک الگ طرح کی حیثیت رکھتا ہے۔ عمارت گِر جائے تو دوبارہ تعمیر ہو جاتی ہے۔ لیکن ایک تشویش زدہ انسان کی تعمیر میں وقت اور دوسرے انسانوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔
جنگ میں بے یار و مددگار رہ جانے والے انسان، زلزلوں میں بے گھر ہونے والے لوگ اور سیلاب سے متاثر ہونے والے افراد مالی نقصان کے علاوہ شدید ذہنی خلفشار سے دو چار ہو جاتے ہیں۔ لیکن ان کے ظاہری حالات کے سوا کوئی انہیں سمجھ نہیں پاتا۔ کوئی نہیں جان پاتا کہ گھر، کاروبار، مال، مویشی اور ان سے بڑھ کر کھو جانے والے اپنوں کا دکھ کیا ہوتا ہے۔ اور انسان کس ذہنی اذیت سے گزرتا ہے۔
طوفان تو آتے اور تھم جاتے ہیں۔ مصیبت آتی ہے اور گزر جاتی ہے لیکن اس کے جانے کے ساتھ کیا کچھ چلا جاتا ہے۔ اس کا اندازہ متاثرہ انسان ہی لگا سکتے ہیں۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگ
ایک سفاک حقیقت کے تحت دنیا کی پہلی جنگِ عظیم 1914 سے 1918 کے دوران 40 ملین جبکہ دوسری جنگِ عظیم 1939 سے 1945 کے دوران تقریباَ 70 ملین ملٹری اور سویلین لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ان عظیم جنگوں کا جب بھی ذکر آتا ہے، مرنے والوں کی تعداد اور نقصان کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ اور ملکوں کی تباہی و بربادی پر بات کی جاتی ہے۔ جس میں پورے شہر کے شہر صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور لاتعداد انسانوں کے نام و نشان مٹ گئے۔
تباہ کن زلزلے
تاریخ گواہ ہے کہ دنیا بھر میں تباہ کن زلزلوں نے بے پناہ تباہی مچائی۔ جن میں متاثرہ ملکوں میں اٹلی، چین، انڈونیشیا، جاپان اور ترکمانستان جیسے ملک سرِفہرست ہیں۔ ان زلزلوں میں املاک کے نقصانات کے علاوہ لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے۔
پاکستان میں آنے والے شدید زلزلوں کی بات کی جائے تو 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے نے ہولناک تباہی مچائی۔ ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے اور لاکھوں زخمی ہوئے۔ املاک کا خاتمہ اور مویشیوں کی ہلاکت ہوئی۔ شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر کے متعدد گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔
سیلاب کی تباہ کاریاں
رواں برس 2022 کی غیر معمولی بارشوں اور تباہ کن سیلاب نے خیبر سے کراچی تک پورے پاکستان کو متاثر کیا ہے۔ شمالی علاقہ جات میں بپھرے دریاؤں نے نہ صرف مشہور سیاحتی املاک سے لے کر راستوں اور پلوں کو ختم کر دیا۔ بلکہ انسانی جانوں کے ساتھ کاروبار اور روزگار کے لاکھوں زرائع اجاڑ کر رکھ دیے۔
بلوچستان اور سندھ میں لاکھوں مویشی اور متعدد گاؤں پانی میں بہہ گئے۔ لوگوں کی جائیدادیں ختم ہو گئیں اور انہوں نے سینکڑوں اپنوں کو پانی کی نذر ہوتے دیکھا۔
پنجاب میں فصلوں کو ناقابلِ بیان نقصان پہنچا۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 90 فیصد کچے مکانات بہہ گئے۔ متعدد بچے لا پتہ ہوئے اور لوگ اپنے مکانات کھو کر بے گھر ہو گئے۔
شدتِ غم انسان میں کیا تبدیلیاں لاتا ہے؟
نقصان، بے روزگاری اور غیر یقین مستقبل سبب بنتا ہے اداسی، غم، جسمانی اور ذہنی صحت کی تباہی کا۔ اپنا سب کچھ کھو دینے والے لوگ سب سے پہلے سَر چھپانے کی جگہ کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بھوک اور پیاس کی شدت دن میں تین بار انہیں ستاتی ہے۔ امدادی کاروائیوں اور عطیات کے منتظر متاثرین سب سے پہلے بھوک سے مر جانے کے خوف میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کھلے آسمان کے نیچے سونے کے بجائے کسی ٹینٹ یا ترپال ملنے پر بھی اپنے گھر کا سکون یاد کرتے ہیں۔ نیندیں اڑا دینے والی راتیں اور اداسی بھرے دن انہیں کسی طور چین نہیں لینے دیتے۔
خاندان کے ہر فرد کی الگ الگ مشکلات
آفت زدہ شہر یا علاقے کے متاثرین خاندان کا ہر فرد اپنی اپنی جگہ ذہنی اذیت سے دوچار ہوتا ہے۔ گھر کا سربراہ اور کمانے والا انسان اپنے روزگار کے ختم ہو جانے یا کاروبار کے تباہ ہونے پر پریشان ہوتا ہے۔ گھر کی خواتین سَر چھپانے کے لیے چھت کی ضرورت محسوس کرتی ہیں۔ بزرگ افراد دوائی اور دیکھ بھال کے منتظر ہوتے ہیں۔ اور سنگین حالات سے ناواقف بچے گھر کا صحن کھو جانے پر کھیل کود کی جگہ ڈھونڈتے نظر آتے ہیں۔ پینے کے لیے صاف پانی کا نہ ہونا، صحت مند غذا اور خوراک کی کمی، دواؤں اور صحت سے جڑی بنیادی ضرورتوں کی عدم دستیابی انہیں کمزور اور لاغر بنا دیتی ہے۔
غیر یقینی صورتحال اور متاثرین پر اثرات
روٹی تو مل جاتی ہے۔ ٹینٹ بھی مل جاتا ہے۔ دوا بھی پہنچ جاتی ہے لیکن اس خوف کا کیا جائے جسے غیر یقینی صورتحال مزید بڑھا رہی ہوتی ہے۔
بے گھر ہو جانے، روزگار ختم ہو جانے اور اپنوں کو کھو دینے والے افراد مختلف منفی اثرات کا شکار ہوتے ہیں۔ جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔
اداسی
گھبراہٹ
چڑچڑاپن یا غصہ
نیند میں دشواری
رشتوں میں بد اعتمادی
منفی خیالات، ڈراؤنے خواب
مثبت جذبات کو محسوس کرنے میں دشواری
ناخوشگوار واقعے سے وابستہ یادیں اور مقامات
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت کا شکار افراد میں یہ نشانیاں کم ہوجاتی ہیں اور وہ بہتری کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں میں یہ اثرات دن بہ دن بڑھتے جاتے ہیں۔ اور انہیں باقاعدہ علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
کیا آپ سیلاب متاثرین میں سے ہیں؟
اگر آپ سیلاب کی موجودہ تباہ کاریوں سے متاثرہ شخص یا خاتون ہیں۔ اور آپ کو غیر یقینی ذہنی صورتحال کا سامنا ہے۔ اور آپ سمجھتے یا سمجھتی ہیں کہ آپ کو صرف ایک اچھے سننے والے کی ضرورت ہے۔ یا پھر آپ اپنے تمام تر محسوسات کاغذ پر لکھ سکتے ہیں تو یقین کیجیئے آپ خود بھی اس حالت سے باہر آ سکتے ہیں۔ جس کے لیے آپ کو صرف تھوڑی سی ہمت کی ضرورت ہے جس کے ذریعے آپ اپنے محسوسات کو کسی دوسرے تک یا کاغذ پر منتقل کر سکتے ہیں۔ اور اس کے بدلے ذہنی سکون حاصل کر سکتے ہیں۔
اپنے خاندان کے افراد پر اعتماد کریں
جن حالات کا آپ شکار ہیں، خاندان کے دیگر افراد بھی اسی صورتحال سے دو چار ہیں۔ آپ عمر کےکسی بھی حصے میں ہیں، اپنے والدین سے بات چیت کریں۔ بہن بھائیوں سے روزانہ کی بنیاد پر گفتگو کریں اور مشکلات اور مصائب پر غور کر کے انہیں حل کرنے کی تجاویز شیئر کریں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ حالات آپ کے قابو میں نہیں، تب بھی اللہ پر یقین رکھیں اور اس بات پر بھروسہ رکھیں کہ اچھے حالات نہیں رہے تو برے حالات بھی نہیں رہیں گے۔ بارشیں آئیں، تباہی آئی، لیکن سب گزر چکا اب اچھے دن آئیں گے اور زندگی معمول کے مطابق چل پڑے گی۔
حالات کا سامنا بہادری سے کریں
کسی بھی ناخوشگوار واقعے اور برے حالات پر مایوس ہوجانا ایک نارمل ردِ عمل ہے۔ لیکن اپنی فیملی سے بات چیت کرنا چھوڑ دینا، الگ تھلگ بیٹھے رہنا، خاموشی اختیار کیے رکھنا، کھانا پینا چھوڑنا یا صرف سوتے رہنا بالکل مناسب ردِ عمل نہیں۔ آپ ایک زندہ انسان ہیں اور تبدیلیاں زندہ انسانوں کی زندگی میں ہی آتی ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ آپ ہی کی طرح آپ کے ارد گرد کوئی اور بھی دادرسی کا منتظر ہو۔ اور اس سے بات کرنے اور سننے کا عمل آپ دونوں میں نئی زندگی کی امنگ پیدا کر دے۔
اپنی صحت کا خاص خیال رکھیں
اگر آپ کے پاس رہنے کے لیے ٹینٹ ہے اور کھانے کے لیے امدادی کھانا۔ تو آپ اسی رہائش میں بھرپور نیند لیں۔ اور اسی دستیاب کھانے سے کھائیں۔ پریشانی اور دکھ سے اگر آپ ان دستیاب اشیا کو بھی خود سے دور کریں گے تو مستقبل کی منصوبہ بندی کیسے کریں گے؟ موجودہ حالات سے کیسے نکلیں گے؟ یہ ٹھکانہ مستقل نہیں نہ ہی یہ کھانا۔
صبر سے کام لیں
زندگی میں حالات معمول کے مطابق ہوں یا پھر غیر موافق۔ جلد بازی اور اجلت کبھی اچھے نتائج نہیں لاتی۔ اور نا مناسب حالات آپ سے تھوڑے زیادہ صبر و استقلال کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دن گزر جاتے ہیں اور حالات اپنی ڈگر پہ چل پڑتے ہیں۔ اچھے دن آنے پر آپ پرانے وقت اور ماضی کو یاد کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ وقت ہم نے کیسے گزارا تھا۔
رضاکارانہ اقدامات کی ضرورت
سیلاب متاثرین کی آہ و بکا اور درد ناک داستانوں سے بھرے حالات کے پیشِ نظر ان افراد کو داد رسی کی ضرورت ہے۔ جو اپنی جمع پونجی، زمین، مویشی اور روزگار ہارنے کے بعد زندگی سے یکسر مایوس ہو چکے ہیں۔ سیلاب کا پانی اتر جائے گا اور لوگ دوبارہ آباد ہو جائیں گے لیکن اپنے وطن کے برباد ہوئے لوگوں کو آباد ہونے میں پھر سے روشنی کی اس کرن کی ضرورت ہے، جس کا سبب میں اور آپ بن سکتے ہیں۔
حکومت ایمرجنسی اقدامات اور امدادی کاروائیوں میں مصروفِ عمل ہے۔ لیکن وہ لوگ جو خود اپنے طور پر سیلاب زدگان اور متاثرین کی ذہنی صحت کے لیے کچھ کر سکتے ہیں انہیں مرتب شدہ مختلف پروگرامز اور سرگرمیوں کے ذریعے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے۔
ذہنی خلفشار سے گزرتے ہر انسان کو علاج یا ٹریٹمنٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بلکہ اپنائیت بھرے الفاظ اور رویے متاثرین کو جلد صحت یاب اور با اعتماد بنا دیتے ہیں۔
ایسے لوگ یا افراد جو رضاکارانہ طور پر زلزلہ یا سیلاب متاثرین کی داد رسی کرنا چاہیں۔ انہیں ضرور عملی اقدامات کے ساتھ آگے آنا چاہیئے۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔