سر زمینِ پاکستان کا یومِ آزادی کیسے منائیں؟

سبز و سفید پرچم اور بےشمار جھنڈیوں سے اپنے گھروں اور گلیوں کو سجا کر ہر سال ہم پاکستان کا یومِ آزادی مناتے ہیں۔ پاک سر زمین کے حصول کی داستانیں تارٰیخ کے اوراق پر رقم ہیں۔ جزبے اور ایثار و قربانی کے قصوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں۔ ہر سال 14 اگست کی آمد پر عام بازاروں اور دکانوں کے علاوہ علیحدہ سے اسٹال لگائے جاتے ہیں جہاں سبز ہلالی پرچم، جھنڈیاں، چاند تارے والے بیجز اور مختلف سبز اور سفید آئٹمز دستیاب ہوتے ہیں۔ ٹی وی پر پورا دن گونجتے ملی نغمے آزادی کا ثبوت دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ ملک بھر کی عمارتوں کو برقی قمقموں اور روشنیوں سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ سڑکوں پر بےہنگم ٹریفک، باجے بجاتے بچے اور میوزک پر دھمال ڈالتے نوجوان چہروں پر رونق لیے پرجوش انداز میں جشنِ آزادی مناتے نظر آتے ہیں۔

invest with imarat

Islamabad’s emerging city centre

Learn More

 اور یوں ہم وطنِ عزیز کے حصول پر فخر کرتے ہوئے رات گئے تک جاری رہنے والی سرگرمیوں کے بعد خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگتے ہیں۔

بےشک وطنِ عزیز کے لیے دی جانے والی قربانیاں لفظوں کی محتاج نہیں۔ لیکن کیا آج ہم ایک آزاد فضا میں سانس لینے جیسی عظیم نعمت کی قدر کر رہے ہیں؟

 

pakistani flag

 

جشنِ آزادی کے دوسرے روز

گزشتہ 74 سالوں سے منایا جانے والا پاکستان کا یومِ ازادی ہر سال 14 اگست کو ملی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔ دو قومی نظریے سے شروعات حاصل کرنے والی لگن اور جدو جہد نے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک الگ وطن حاصل کرنے کے لیے شعور بیدار کیا۔

لیکن سرکاری اور قومی سطح پر منایا جانے والا یہ اہم دن دوسرے دن ہی کیوں مدھم پڑنے لگتا ہے؟ عمارتوں پر نصب کیا جانے والا سبز ہلالی پرچم پھیکا پڑ جانے کے باعث دنوں اور مہینوں تک کیوں سب کو محظوظ کر رہا ہوتا ہے؟

 سڑکوں پر جا بجا بکھری جھنڈیاں رات گئے تک جاری رہنے والے طوفانِ بدتمیزی کی عکاسی کر رہی ہوتی ہیں۔ صبح ہوتے ہی سب افراد تعلیمی اداروں، دفاتر اور معمول کے مطابق اپنی منزلوں کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں۔ گلیوں میں کھیلتے چھوٹے بچے وطن کی خاطر جانیں قربان کرنے والوں کے نام تک نہیں جانتے۔

 

 

 ہماری قومی ذمہ داری کیا ہے؟

سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے بچوں سے اگر پوچھا جائے کہ پاکستان کب معرضِ وجود میں آیا، تو وہ معصومانہ انداز میں فوراَ جواب دیتے ہیں کہ 14 اگست 1947 کو۔  لیکن کیا ہم کتابی سبق پر رٹا لگوانے کے برعکس علامہ اقبال کا دو قومی نظریہ اور قائدِ اعظم کی انتھک محنت اور جدوجہدِ آزادی کا درس دیتے ہیں۔ عورتوں اور بچیوں کی عزت وناموس کی دل سوز داستانیں اور وطن کی بنیادوں میں اپنے بزرگوں اور جوانوں کے خون کا ذکر کرتے ہیں؟ کیا قومی محسنوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اس کے پس منظر کو ایک جھلک دیکھ پاتے ہیں؟

 

 

 

اقبال کا خواب اور قائد کی جدوجہد

اگست کے مہینے کی آمد کے ساتھ ہی پاکستان میں سرکاری سطح پر قومی تہوار منانے کے لیے تیاریاں کی جاتی ہیں۔ ملک بھر کی اہم عمارتوں پر چراغاں کیا جاتا ہے۔ ہماری اولین زمہ داری ہےکہ قیامِ پاکستان سے قبل برصغیر کے مسلمانوں کی تکلیفیں اور قربانیاں اجاگر کریں۔ ڈاکٹر علامہ اقبال کے دو قومی نظریے اور اور بابائے قوم کی جدو جہدِ آزادی کے دوران پیش آںے والی مشکلات اور مصائب سے عوام کو آگاہ کریں۔

 

 

برصغیر کے مسلمانوں کی کاوشیں

برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے اقبال اور قائد کی محنت اور انتھک کوششوں میں بھرپور ساتھ دیا۔ نہ صرف سیاسی جلسے جلوسوں میں بڑھ چھڑ کر حصہ لیا بلکہ ہجرت کے دوران اپنے جان و مال کے نزرانے پیش کیے۔ خون آلود ٹرینوں اور چھکڑوں کے قافلے وطنِ عزیز تک پہنچنے میں نصف جانوں کے نزرانے دے کر پاکستان کی سرحد میں داخل ہو پاتے۔

 

 

 

آج ہم یوم آزادی کیسے مناتے ہیں؟

ذخیرہ اندوزی، رشوت، چور بازاری اور ایسی دیگر برائیوں نے آج ہمارے ملک کے جذبے تو ماند نہیں کیے اور ہم قربانیاں دے کر اپنا وطن حاصل کرنے والے احساسات کو بھولتے جا رہے ہیں۔

جذبہ حب الوطنی سب کے دلوں میں موجود ہے۔ لیکن آج بدقسمتی سے ہم اس کے معنی کھو چکے ہیں۔

مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔

invest with imarat Islamabad’s emerging city
centre
Learn More
Scroll to Top
Scroll to Top