دنیا میں جدت کا عجب دور چل رہا ہے۔ یوں کہیے کہ ٹیکنالوجی اور ایجادات کا ایک طوفان ہے جس کے آگے بند نہیں باندھا جا رہا۔ ٹیکنالوجی دنیا کا نقشہ تبدیل کررہی ہے گویا جیسی دنیا تھی، اب ویسی نہیں ہے اور جیسی دکھ رہی ہے یقیناً آنے والے ایام میں ایسی نہیں رہے گی۔
کہتے ہیں کہ جن مشاہدات پر مبنی ہم سے پہلے کی نسلیں اس دور کی پیش گوئیاں کرتی تھیں، اس دور میں ہم آنے والے وقت کے بارے میں اگر کریں بھی تو وہ دُرست ثابت نہیں ہوں گی۔ اُس کی وجہ صرف جدت ہے جو کہ انسان کو ششدر کرنے کے لیے کافی ہے۔ آج سے نصف صدی پہلے شاید ہی کسی نے ڈرون ٹیکنالوجی کا تعمیراتی سائٹ پر استعمال کا سوچا ہو یا شاید ہی کسی نے اسمارٹ ہومز کی اس قدر پذیرائی کا تصور کیا ہو۔
انٹرنیٹ ان تمام تر تبدیلیوں کی وجہ ہے۔ اس لفظ نے فاصلے مٹا دیے، مسافتیں ختم کردیں اور دنیا کو زمان و مکان کی قید سے آزاد کردیا۔ یوں ثقافتیں تبدیل ہونے لگیں، لوگوں کا رہن سہن بدلنے لگا، ملبوسات کو بھی بدلتے رنگوں نے آ لیا اور طرزِ زندگی نے بھی ماضی سے کوئی مطابقت نہ رکھی۔ لوگ آج جڑے ہوے ہیں، اُن کا ایک دوسرے سے فاصلہ سمٹتا جا رہا ہے اور لوگوں کو اب کسی صورت بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا کوئی بڑی بات نہیں لگتی۔ یوں سمجھیے کہ انسانی زندگی سہل انداز میں آگے کی جانب گامزن ہے اور بیشتر ایسے کام جن کا ہونا پہلے نا ممکن تھا، اب وہ کام شاید کام بھی نہیں لگتے۔
ٹیکنالوجی اور ریئل اسٹیٹ
انسان شروع ہی سے اپنی چھت کا خواہاں رہا ہے۔ زمین کی خرید، اُس پر رہن اور دیگر معاملات کے لیے اُس کا استعمال، ان باتوں نے انسان کو شروع دن سے محو رکھا ہے۔ جہاں دنیا کے دیگر معمولات و معاملات میں تبدیلی کا رجحان ہے، وہیں ریئل اسٹیٹ کے احاطے میں بھی جدت کا دور دورہ ہے۔ جہاں ٹیکنالوجی اور بدلتے وقت کے معیار آسانیاں لائے ہیں، وہیں آسانیوں کے ساتھ چند ایک چیلنجز کا بھی سامنا ہے جن پر آج کی تحریر روشنی ڈالے گی۔
آمد و رفت کے ذرائع میں تبدیلی
لوگوں کی آمد و رفت کا انداز بدلنے لگا ہے۔ لوگ اب سسٹینیبل لیونگ کی طرز پر چل نکلے ہیں۔ الیکٹرک گاڑیاں جو کہ بچت اور ماحول دوستی کا سامان رکھتی ہیں، مستقبل قریب کے دھندلکے میں صاف دکھائی دے رہی ہیں۔ لوگ اب اپنی حرکات و سکنات کے لیے کسی ایک ذریعے کے محتاج نہیں ہیں۔
یوں انسان ایسے بہت سے مواقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جن سے وہ پہلے صرف اس لیے استفادہ نہیں کرتا تھا کہ مسافت زیادہ تھی۔ یوں ریئل اسٹیٹ کا میدان جدت کے گھوڑوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ شہر پھیلاؤ کا شکار ہیں اور راستے سمٹتے جا رہے ہیں۔ کوئی اگر اب کسی ویرانے میں بھی زمین خرید لے تو جس تیزی سے دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے، دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک ایسا شہر آباد ہوجاتا ہے کہ اس زمین کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں۔ موبائل لیونگ کا ایک ایسا رجحان ہے کہ ریئل اسٹیٹ کی لسٹنگ، گھروں کی خریداری، سائٹ وزٹس اور کمرشل احاطوں کی نیلامیاں سب آن لائن ہورہی ہیں۔
انٹرنیٹ اور ہمارے شہر
اسی طرح سے انٹرنیٹ، جیسا کہ تحریر کے آغاز میں عرض کیا جا چکا ہے، نے کافی حد تک آن لائن بات چیت کو ممکن بنا کر ریئل اسٹیٹ کے میدان میں تبدیلی کی راہ ہموار کی۔ سوشل اور کمرشل بات چیت اب انٹرنیٹ کے ذریعے ہو کر گزرتی ہے۔
اب کاروبار تجربات کی فراہمی کا نام ہے۔ چونکہ روایتی طرز زندگی اپنی آخری سانسوں پر ہے، شہروں کو ری ڈیزائن کرنے کی سوچ پروان چڑھ رہی ہے جن میں خصوصی اسٹورز، اوپن ایئر مارکیٹوں، کیفیٹریاز اور رستورانوں پر توجہ ہوگی۔ اس کا مطلب ہے کہ کمرشل اور پبلک اسپیس میں تفریحی یا ایسے مراکز پر خصوصی زور ہوگا جہاں سوشل لین دین طے پا سکے۔
ہیلتھ کیئر سسٹمز کی بہتری
ہیلتھ کیئر سسٹمز کی بہتری سے شرح زندگی میں اضافے کی نوید سنائی دے رہی ہے۔ انگریزی کے ایک بڑے جریدے میں اس کو ایجنگ پاپولیشن کہا گیا یعنی بڑھتی عُمر کے افراد کا ایک بڑا حصہ اب آبادیوں کا حصہ ہے۔ چونکہ تحریر کے چند سطور قبل شہری احاطوں کو ری ڈیزائن کرنے کی بات کی گئی، یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ جہاں یہ سوچ ہے وہیں یہ سوچ بھی ہے کہ اس ایجنگ پاپولیشن کے لیے اوپن اسپیس رہائش پر زور دیا جائے۔
شہروں میں سبز احاطوں کے تحفظ کیا جائے، تفریحی مقامات اور پُر افزا سرگرمیوں کے لیے جگہ بنائی جائے تاکہ عُمر رساں افراد کو بھی جینے کا وہ لطف آسکے جو باقی لوگ لینے کا حق رکھتے ہیں۔ اسی طرح ایک عالمی جریدے کے مطابق دنیا میں مختلف شہر اب خصوصی ویل چیئر روڈز، پاتھس اور ایڈیشنل سیٹنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی کا شہری زندگی پر اثر
اسی طرح ماحولیاتی تبدیلی بھی آج کل کے شہروں پر خاصا اثر ڈال رہی ہے۔ کہتے ہیں ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو سب سے بڑا خطرہ ماحولیاتی تبدیلی سے ہے۔ آئے روز ہم سنتے ہیں کہ کہیں کوئی سائیکلون آ گیا تو کہیں کسی سیلاب نے خس و خاشاک بہا دیے۔
اس وجہ سے لوگ اب خاصے محتاط ہیں کہ وہ جہاں پراپرٹی خرید رہے ہیں، وہ جگہ موسمیاتی لحاظ سے مسئلے مسائل سے پاک ہو۔ یوں جہاں شہر پھیلاؤ کا شکار ہیں، وہیں کہیں نہ کہیں شہر سکڑ بھی رہے ہیں کیونکہ اچھی لوکیشنز پر لوگوں کی خاص نگاہ اور خاص توجہ ہے۔ ساحلی پٹیوں پر لوگ رہ تو رہے ہیں مگر کہیں نہ کہیں موسمیاتی تبدیلیوں کا فیکٹر اُن کے اذہان میں ضرور ہے اور وہ محتاط ہیں۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کے لیے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔