پاکستان کی گِرتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے حکومتِ وقت نے رواں مالی سال 2023ء کے دوران بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور کمرشل بینکوں سے مجموعی طور پر 4 ارب ڈالرز کی اضافی قرضوں کی منصوبہ بندی مکمل کر لی ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، روپے کی قدر میں غیر یقینی حد تک اضافے اور قابو سے باہر درآمدی بل کے پیشِ نظر وزارتِ خزانہ کے حکام نے حکومت کو آئندہ 12 ماہ کے دوران یعنی رواں مالی سال کے اختتام تک بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور کمرشل بینکوں سے مجموعی طور پر 4 ارب ڈالرز کے اضافی قرضوں کی تجویز دی تھی۔
وزارتِ خزانہ حکام کا ماننا ہے کہ ان اضافی قرضوں سے نہ صرف ادائیگیوں کے توازن بلکہ غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر اور ترسیلاتِ زر کو مستحکم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور وزارتِ خزانہ نے مالی سال 2023ء کے لیے مالیاتی حکمتِ عملی پر مشتمل پانچ اہم حقائق بیان کیے ہیں جن پر یہاں ہم اپنے قارئین سے تبادلہ خیال کریں گے۔
مالی سال 2023ء کے لیے وزارتِ خزانہ اور بینک دولت پاکستان کی مشترکہ حکمتِ عملی
حکومت کا آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ تمام شرائط پر عملدرآمد یقینی بنانے کا عزم
وزارتِ خزانہ حکام کا ماننا ہے کہ پاکستان کے مسائل عارضی نوعیت کے ہیں جن کے حل کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔
فروری 2022ء سے پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہونا شروع ہوئی جس کی وجہ آمدِ زر کی نسبت انخلائے زر کا زیادہ ہونا ہے۔ آمدِ زر بنیادی طور پر آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک سے کثیر فریقی قرضوں، چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک سے ڈپازٹس اور قرضوں کی صورت میں دو طرفہ مالی معاونت، یورو بانڈز اور سکُوک کے ذریعے غیرملکی بینکوں سے کمرشل قرضوں پر مشتمل ہے۔
آمدِ زر میں کمی کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف کے آئندہ جائزے میں تاخیر بتائی جاتی ہے جو پالیسی میں سقم کا باعث بنی۔
دریں اثنا انخلائے زر کے حوالے سے غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کا سلسلہ جاری رہا کیونکہ اس عرصے میں یہ رقوم واجب الادا تھیں۔
ایسے میں وسط جون کے بعد سے شرح مبادلہ شدید دباؤ کا شکار ہو گئی اور اس کی بنیادی وجہ روپے کی قدر میں غیر یقینی حد تک کمی تھی۔ جو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور آئی ایم ایف پروگرام اور ملکی سیاست میں غیریقینی صورتحال کی وجہ سے احساسات مجروح ہونے کی بناء پر سامنے آیا۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق 13 جولائی کو قرض کے حوالے سے آئی ایم ایف کے آئندہ جائزے کی تکمیل ہونے پر اسٹاف کی سطح پر معاہدے کا اہم سنگ میل عبور کرلیا گیا۔ آئی ایم ایف اس جائزے کی تکمیل کے لیے تمام پیشگی اقدامات کر لیے گئے ہیں اور 1.2 ارب ڈالر کی آئندہ قسط کے اجراء کے لیے باضابطہ بورڈ اجلاس آئندہ چند ہفتوں میں متوقع ہے۔
ایسے میں ڈیمانڈ اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے معاشی پالیسیاں – مالیاتی پالیسی اور زری پالیسی دونوں مناسب انداز سے سخت کردی گئی ہیں۔
بالآخر حکومت نے یہ واضح طور پر اعلان کردیا ہے کہ وہ اکتوبر 2023ء تک اپنی باقی ماندہ مدت پوری کرنے کی خواہاں ہیں اور آئی ایم ایف پروگرام کے بقایا آئندہ 12 ماہ میں مالیاتی ادارے کے ساتھ طے شدہ تمام شرائط پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار ہے۔
آئندہ مہینوں میں 4 ارب ڈالرز کا انتظام دوست ممالک سمیت مختلف ذرائع سے ممکن بنانے کی تیاریاں
اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور وزارتِ خزانہ کے حکام اس بات کے لیے پُرعزم ہیں کہ مالی سال 2023ء میں آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کے تحت پاکستان کو درکار خالص قرضوں کی ضرورت مکمل طور پر پوری ہوجائے گی۔
قرضوں کی ضرورت کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 10 ارب ڈالر سے تجاوز کرنے اور تقریباً 24 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی اصل رقم کی ادائیگیوں کے سبب پیدا ہوئی۔
پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کی موجودہ صورتحال کو کو تقویت دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان موجودہ ضروریات کی نسبت تھوڑے زیادہ قرضے حاصل کرے۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت نے آئندہ 12 مہینوں کے لیے 4 ارب ڈالر کے اضافی قرضوں کی منصوبہ بندی کی ہے۔ اِن رقوم کا انتظام مختلف ذرائع سے کیا جارہا ہے جس میں وہ دوست ممالک بھی شامل ہیں جنہوں نے جون 2019ء میں آئی ایم ایف پروگرام کے آغاز کے وقت پاکستان کی مدد کی تھی۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو قابو میں کرنے کے لیے اہم اقدامات کیے جا رہے ہیں
عالمی منڈیوں میں زرعی اجناس کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کے علاوہ مالی سال 22ء میں بھاری کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے سبب مسلسل دو سال تک شرح نمو تقریباً 6 فیصد تک پہنچ گئی جس کے نتیجے میں معیشت کی اوورہیٹنگ ہوئی۔
مستقبل میں اس خسارے کو قابو میں کرنے کے لیے پالیسی ریٹ 800 بیس پوائنٹس بڑھایا گیا ہے۔ توانائی کی سبسڈی کا پیکیج ختم کردیا گیا ہے اور مالی سال 2023ء کے بجٹ میں جی ڈی پی کے تقریباً 2.5 فیصد کے برابر کنسولیڈیشن کا ہدف طے کیا گیا ہے جس میں ٹیکس میں اضافے لیکن غریب ترین طبقے کا مالیاتی تحفظ شامل ہے۔
اس کے علاوہ درآمدی بل کو قابو میں کرنے کے لیے عارضی انتظامی اقدامات کیے گئے ہیں جس میں گاڑیاں، موبائل فون اور مشینری درآمد کرنے سے پہلے پیشگی منظوری کی شرط شامل ہے۔ وزارتِ خزانہ حکام کا کہنا ہے کہ جب کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ آئندہ مہینوں میں کم ہونا شروع ہو گا تو یہ اقدامات نرم کردیے جائیں گے۔
رواں مالی سال کے آغاز سے درآمدی بِل میں نمایاں کمی
جولائی 2022ء میں درآمدی بل میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی کیونکہ توانائی کے پیداواری وسائل کی درآمدات میں کمی آئی ہے جبکہ غیر توانائی وسائل کی درآمدات میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔
جولائی میں زرمبادلہ کی ادائیگیاں جون کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم تھیں یہ مشاہدہ آئل اور نان آئل دونوں وسائل کی ادائیگی کے مطابق ہے۔ مجموعی طور پر جولائی میں ادائیگیاں 6.1 ارب ڈالر پر مستحکم تھیں جبکہ جون میں یہ 7.9 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں۔
تازہ ترین تجارتی اعداد و شمار کے مطابق نان آئل مصنوعات کی درآمدات مسلسل کم ہو رہی ہیں بالخصوص مالی سال 2022ء کی چوتھی سہ ماہی کے دوران نان آئل کی درآمدات میں سہ ماہی بنیادوں پر 5.7 فیصد کمی واقع ہوئی۔ جبکہ آگے چل کر ان میں مزید کمی متوقع ہے۔
جون 2022ء میں آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی پٹرولیم مصنوعات کی فروخت کے حجم میں ماہانہ بنیادوں پر 11 فیصد کمی واقع ہوئی۔
جون 2022ء میں توانائی کی درآمدات میں اضافے کے بعد اب ملک میں ڈیزل اور فرنس آئل کا ذخیرہ دستیاب ہے جو بالترتیب 5 اور 8 ہفتوں کے لیے کافی ہے جو کہ ماضی کے 2 تا 4 ہفتوں کی معمول کی حد سے زیادہ ہے۔
حالیہ بارشوں اور ڈیموں میں پانی کے ذخیرے سے پن بجلی میں بھی اضافہ ہونے کا امکان ہے اور توقع ہے کہ مستقبل میں درآمدی ایندھن سے بجلی پیدا کرنے کی ضرورت میں کمی واقع ہو جائے گی۔
ان رجحانات کے نتیجے میں مستقبل میں درآمدی بل میں تخفیف کا امکان ہے۔
مجموعی طور پر آئندہ مہینوں میں درآمدات میں کمی متوقع ہے جس کی وجہ عالمی اجناس کی قیمتوں میں کمی، تیل کا زیادہ ذخیرہ، پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ظاہر ہونے والے اثرات، بجلی اور گیس کے نرخوں میں ردوبدل، مالی سال 2023ء کے بجٹ کے تحت ٹیکس چھوٹ کے خاتمے، درآمدات کو کم کرنے کے لیے کیے گئے انتظامی اقدامات اور زری اور مالیاتی سخت پالیسیوں میں تاخیری اثرات ہیں۔
آئندہ چند ماہ کے دوران روپے کی قدر میں اضافے کا امکان
دسمبر 2021ء سے روپے کی قدر میں تقریباً نصف کمی امریکی ڈالر کی عالمی قیمت میں اضافے سے منسوب کی جاسکتی ہے جو فیڈرل ریزرو کی جانب سے تاریخی سختی اور خطرے سے گریز میں اضافے کے بعد ہوئی۔
بقیہ نصف میں سے کچھ کمی ملکی معاشی مبادیات کی بنا پر ہوئی۔ خاص طور پر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بڑھنے کی وجہ سے خصوصاً گذشتہ چند ماہ میں۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ یہ خسارہ متوقع طور پر آگے چل کر کم ہوگا جب درآمدی بل میں کمی واقع ہونا شروع ہو گی تو روپے کی قدر میں بتدریج اضافہ ہونا شروع ہو جائے گا۔
وزارتِ خزانہ کا ماننا ہے کہ یہ افواہیں قطعی بے بنیاد ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ایکسچینج ریٹ کی ایک خاص سطح طے پائی ہے۔ ایکسچینج ریٹ لچکدار اور مارکیٹ کے مطابق تعین پاتا ہے۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔