بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے دنیا میں جہاں دیگر وسائل اور بنیادی ضروریات میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے وہیں دنیا بھر میں رہائشی سہولیات کا بحران بھی سر اٹھا چکا ہے۔ ایک بین الاقوامی تحقیق کے مطابق دنیا بھی میں رہائشی سہولیات کے بغیر رہنے والے افراد کی آباد میں سالانہ بنیادوں پر 2.7 فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔
رہائشی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے نہ صرف نئے تعمیر ہونے والے گھروں کے سائزمیں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے بلکہ دنیا فیبریکیٹڈ گھروں میں رہائش اختیار کرنے کے رحجان کی جانب تیزی سے منتقل ہو رہی ہے۔
تھری ڈی پرنٹنگ سے لے کر بائیو مینوفیکچرڈ مٹیریل تک تعمیرات کی نئی ٹیکنالوجیز کو ہاؤسنگ کے عالمی بحران جس سے 2025ء تک دنیا کے 1.6 ارب افراد کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے کا تیزاور سستا تر حل قرار دیا جارہا ہے۔ یہ نئی ٹیکنالوجیز تعمیراتی ضیاع میں بڑے پیمانے پر کمی لاکر ناصرف ماحولیات پر کم بوجھ ڈالیں گی بلکہ یہ کاربن نیوٹرل یا کسی حد تک منفی بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔
کاربن نیوٹرل سے مراد وہ عمارتیں ہیں جن سے کاربن کا اخراج صفر ہوتا ہے جب کہ کاربن نیگیٹو کا مطلب وہ عمارتیں ہیں جو نا صرف خود کاربن خارج نہیں کرتیں بلکہ اس کے برعکس ماحول سے کاربن کو جذب بھی کرتی ہیں۔ تعمیراتی صنعت میں ان نئی ٹیکنالوجیز کا پرجوش طریقے سے خیرمقدم کیا جارہا ہے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ اب بھی موجود ہے کہ کیا یہ ٹیکنالوجیز توقعات پر پوری اُتر سکیں گی؟
تیارشدہ گھروں کی فراہمی کے لیے مارکیٹ سروے کے بعد جگہ کا انتخاب
ہاؤسنگ کی عالمی مارکیٹ اپنے پیشگی متعین کردہ معیارات کے گرد چل رہی ہے جس میں نئی تعمیرات اور ہوم اونرشپ پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ جو کہ کسی بھی صنعت میں معیارات کا ہونا پیداواری صلاحیت میں اضافے اور لاگت میں کمی کا باعث ہوتا ہے تاہم ساکن معیارات مختلف لوگوں، طبقات اور خطوں کی مختلف ضروریات میں نہیں ڈھل سکتے۔ مثال کے طور پر میکسیکو میں ریڈی میڈ ہوم کی ٹیکنالوجی کو جب کم مطلوب مقامات پر متعارف کرایا گیا تو وہاں ہاؤسنگ مارکیٹ کریش کرگئی۔ میکسیکو کے ان مقامات پر پیشگی تیار شدہ گھر اب بھی خالی پڑے ہیں۔
کووِڈ 19 بحران نے ہاؤسنگ میں تبدیلی کو اپنانے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گھر کے مکینوں کے پاس آپشن ہونا چاہیے کہ وہ گھر میں بآسانی نئی دیواروں کا اضافہ کرسکیں یا کسی دیوار کو گرا سکیں تاکہ گھروں کے مکین دفتر سے دور گھر میں دفتری کام انجام دینے کے لیے گھر کے ڈیزائن میں ترامیم لاسکیں۔ لوگوں کو صرف نئی تعمیرات کی ضرورت ہی نہیں بلکہ کئی لوگوں کو گھر کی سادہ سی مرمت، بحالی یا اَپ گریڈ کرنے کی سہولیات تک آسان رسائی حاصل ہونی چاہیے۔
اندازہ ہے کہ اس وقت جو عمارتیں موجود ہیں ان میں سے دو تہائی عمارتیں 2050ء میں بھی زیرِ استعمال ہوں گی جو اس وقت کئی ڈھانچہ جاتی اور ماحولیاتی مسائل کا باعث بنیں گی جبکہ معیارِ زندگی پر ان کے اثرات اس کے علاوہ ہوں گے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی دستیاب ہے۔ بے قاعدہ آبادیوں کی نقشہ سازی کے لیے ’تھری ڈی اسکین‘ اور گرنے کے خطرات سے دوچار عمارتوں کی کم خرچ میں نشاندہی کے لیے مشین لرننگ سوفٹ ویئر کا استعمال کرنا ہو گا۔
گھر کی خرید یا تعمیر کے لیے ہوم فنانسنگ کی سہولیات کی دستیابی یقینی بنانا
آج دنیا بھر میں کئی گھرانے بینک سے مارگیج حاصل نہیں کرسکتے کیوں کہ وہ یا تو بے قاعدہ (اِن فارمل) معیشت کا حصہ ہیں یا ان کے پاس زمین کے ٹائٹل کے کاغذات نہیں ہیں۔ آمدنی کا ثبوت اور ڈاؤن پے منٹ کی شرائط بھی کئی لوگوں کو مارگیج تک رسائی حاصل کرنے سے روک دیتی ہیں۔ فِن ٹیک میں جدت لا کر بے قاعدہ معیشت کا حصہ سمجھے جانے والے خاندانوں کی بے قاعدہ آمدنی کی تصدیق اور اسے تسلیم کرتے ہوئے انھیں ہاؤسنگ مارگیج کے اہل بنایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں بلاک چین ٹیکنالوجی کا استعمال بھی سستے حل فراہم کرسکتا ہے۔
گھروں کی تعمیر سے متعلق جدید تحقیق پر مبنی تصوراتی ہم آہنگی
گھر کی ملکیت کے بین الاقوامی تصور نے غیرمساویت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ گھر کو قابلِ دسترس بنانے کے عمل کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ جس طرح ایئر بی این بی نے ’ویکیشن رینٹل‘ مارکیٹ میں انقلاب برپا کیا ہے، اسی طرح متذکرہ بالا اسٹارٹ اَپس کم آمدنی والے خاندانوں، پناہ گزینوں اور معاشرے کے نچلے طبقہ سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کے لیے بڑے پیمانے پر مددگار ثابت ہوسکتی ہیں، جو مناسب کرایہ پر گھر کی تلاش میں مارے پھرتے ہیں۔
کئی شہروں میں مالک مکان کرایہ داروں سے ناصرف بھاری پیشگی رقوم لیتے ہیں بلکہ کئی جگہوں پر ان کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ اگر اس شعبہ میں کچھ عالمی اسٹارٹ اَپس آجائیں تو کم آمدنی والے خاندانوں کے لیے کرایہ کے گھروں کی ایک نئی مارکیٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ اچھے کرایہ داروں کی بچتوں اور حقوق کو تحفظ حاصل ہوسکتا ہے اور رینٹل سبسڈی اسکیموں اور گارنٹی فنڈز کے ذریعے بھاری پیشگی رقوم کے مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کے لیے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔