پاکستان کے آرکیٹیکچر کے بارے میں جاننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وطنِ عزیز کے مشہورِ زمانہ آرکیٹیکٹس کے بارے میں جانا جائے۔ یہ وہ اہم معلومات ہیں جو آپ کو ہر صورت ہونی چاہئیں۔ ان آرکیٹیکٹس نے ملکی و غیر ملکی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا۔
آئیے آج پاکستان کے بے شمار بڑے ناموں میں سے چند عظیم آرکیٹیکس کے بارے میں آپ کو آگاہ کرتے ہیں۔
جہانگیر خان شیرپاؤ، فخرِ پاکستان
پاکستان کا اگر فنِ تعمیر کی دنیا میں کسی نے بین الاقوامی طور پر نام روشن کیا ہے تو اُن چند بڑے ناموں میں جہانگیر خان شیرپاؤ کا نام بھی شامل ہے۔ وہ پاکستان سے آرکیسیا یعنی آرکیٹیکٹس ریجنل کونسل ایشیاء کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔
پاکستان کے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ یہ وہ ادارہ ہے جس میں 21 ایشیائی ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک میں چین، جاپان اور کوریا جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ ان کو رائل انسٹی ٹیوٹ آف برٹش آرکیٹیکٹس کی طرف سے صدارتی میڈل سے بھی نوازا جا چکا ہے۔
اگر ان کے تعلیمی پسِ منظر کی بات کریں تو انہوں نے آئی آئی ٹی شکاگو سے جدیر فنِ تعمیر کی تعلیم حاصل کی۔ آئی آئی ٹی کو جدید فنِ تعمیر کی جائے پیدائش بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے فنِ تعمیر میں پروفیشنل بی ایس اور سٹی اینڈ ریجنل پلاننگ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
پاکستان واپس آنے سے پہلے ان کا آخری پراجیکٹ امریکن ایئر لائنز کے ٹرمینل کی توسیع اور شکاگو ائیرپورٹ کو اپ گریڈ کرنا تھا جو اُس وقت دنیا کا مصروف ترین ہوائی اڈہ تھا۔ اس کے علاوہ وہ ادارہ جاتی عمارتوں جیسے کہ اسلام آباد میں بیکن ہاؤس انفارمیٹکس، اسلام آباد میں ہی ورلڈ بینک کی عمارت کی توسیع، پاکستان پوسٹ اور یونین بینک کی عمارت جیسے پراجیٹس پر کام کر چکے ہیں۔
عارف حسن: ہلالِ امتیاز کے اعزاز یافتہ آرکیٹیکٹ
عارف حسن وہ ماہرِ تعمیر ہیں جن کو ان کی خدمات کے اعزاز میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے ہلالِ امتیاز سے نوازا جا چکا ہے۔ فنِ تعمیر کے شعبے سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے اس لیجنڈ اور ان کی معروف تعمیرات سے ضرور واقف ہیں۔ عارف حسن ایک قابل ماہرِ تعمیرات ہیں جنہوں نے آکسفورڈ پولی ٹیکنک سے فنِ تعمیر کی اعلٰی تعلیم حاصل کی۔
وہ یورپ کی معروف آرکیٹیکچرل ایجنسیوں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ وہ پاکستانی اور یورپی یونیورسٹیوں میں بھی بطور استاد خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ ان کے چیدہ چیدہ پراجیکٹس کے نام درج ذیل ہیں۔
ایس او ایس چلڈرن ویلیج، کراچی، مئی 1985ء
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کمپلیکس، کراچی، 2000ء
نگرپارکر گیسٹ ہاؤس کمپلیکس، 2009ء
کریسنٹ ماڈل سکول، لاہور، 1966ء
سندھ زمیندار ہوٹل، کراچی، 2004ء
نیئر علی دادا، پاکستان میں جدید فنِ تعمیر متعارف کروانے والے ماہرِ تعمیر
پاکستان کے اعلیٰ ترین معماروں میں نیئر علی دادا کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں جدید فنِ تعمیر لانے والے وہی ہیں۔ جدید فنِ تعمیر کے موجد اور علمبردار ہونے کے ناطے، وہ بہت سارے ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی کامیابیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان کی اعلٰی خدمات کے اعتراف میں ان کو ہلالِ امتیاز، ستارہ امتیاز اور دیگر اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ ان کے عالیشان پراجیکٹس درج ذیل ہیں۔
عظیم الشان جامع مسجد بحریہ ٹاؤن، کراچی
عظیم الشان جامع مسجد بحریہ ٹاؤن، لاہور
سرینا ہوٹل اسلام آباد
قذافی اسٹیڈیم لاہور
لاہور چڑیا گھر
یاسمین لاری، پاکستان کی پہلی خاتون آرکیٹیکٹ
خواتین نے جہاں مختلف شعبوں میں پاکستان کا نام روشن کیا ان میں سے ایک آرکیٹکچر بھی ہے۔ یاسمین لاری پاکستان کی پہلی خاتون آرکیٹیکٹ ہیں جنہوں نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی سکول آف آرکیٹیکچر سے ڈگری حاصل کی۔ یاسمین لاری پاکستان کے آرکیٹیکچرل سیکٹر میں تاریخی تعمیرات پر کام کر چکی ہیں۔
ان کے شاہکار پراجیکٹس میں انگوری باغ ہاؤسنگ 1978ء میں، تاج محل ہوٹل 1981ء میں، فنانس اینڈ ٹریڈ سینٹر 1989ء اور 1991ء میں پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی کا ہیڈ کوارٹر شامل ہے۔ ان تعمیرات کے ساتھ ساتھ وہ پشاور میں واقع سیٹھی محلہ میں ہیریٹیج سنٹر اور سیٹھی ہاؤس جیسے کچھ منصوبوں کی بحالی کے ذریعے تاریخی ورثے کے محفوظ بنانے میں بھی اپنا حصہ ڈال چکی ہیں۔ ان کو 1969ء میں رائل انسٹیٹیوٹ آف برٹش آرکیٹیکٹس کا رکن منتخب کیا گیا جو پاکستان کے لئے ایک اور اعزاز ہے۔
یہ وہ چند بڑے نام ہیں جنہوں فنِ تعمیر کی دنیا میں پاکستان کا چہرہ سمجھے جاتے ہیں۔ یہ ماہرِ تعمیرات بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ بہتر بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر چکے ہیں۔
بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی ریئل اسٹیٹ انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے ان آرکیٹیکٹس کے شاہکار پراجیکٹس کا پرچار نہایت اہم ہے۔ اس مقصد کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم خود اپنے ان لیجینڈز کے بارے میں بھرپور معلومات رکھتے ہوں۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔