ایکو ٹورزم سیاحت کے فروغ کا ماحول دوست طریقہ ہے۔ دنیا کلائمیٹ چینج کے اثرات کی لپیٹ میں ہے اور اس سے نکلنے کی راہ ڈھونڈ رہی ہے۔ گزشتہ دنوں امریکہ اور چین نے خود کو مکمل طور پر کاربن نیوٹرل بنانے کیلئے ڈیڈ لائنز پر گفت و شنید کی، سعودی عرب میں ہونے والی مڈل ایسٹ گرین انیشی ایٹو کانفرنس اور اگلے ماہ ہونے والی کاپ 26 کانفرنس اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
پاکستان بہرحال اُن چھ ممالک میں آتا ہے جن پر ماحولیاتی تبدیلی کا اثر سب سے زیادہ ہوگا۔ تاہم شاید اور ممالک سے زیادہ پاکستان کو سنجیدہ ماحول دوست اقدامات لینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچا سکیں، اپنے قدرتی وسائل کی حفاظت کرسکیں، اُن کے بہتر استعمال کو یقینی بنائیں اور سسٹنیبل ٹورزم کی جانب بڑھ سکیں جس سے ہمارے مُلک کا معاشی استحکام ممکن ہوسکے۔
ایکو ٹورزم کا مطلب
ایکو ٹورزم سے آپ مقامی لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر بنا سکتے ہیں اور روزگار کے بیش بہا مواقع پیدا کرسکتے ہیں۔ ایکو ٹورزم میں سیاحت کے فروغ کے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس امر کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ لوگوں کیلئے سیاحتی سرگرمیوں کی پیدائش کے سفر میں وائلڈ لائف، قدرتی وسائل اور مناظر اور ماحولیات کا خصوصی خیال رکھا جائے۔
کورونا کے بعد کی دنیا
کورونا وبا میں ہر طرف جمود نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ دنیا کا ہر شخص اپنی اپنی چار دیواری میں قید ہوگیا تھا۔ وبا کے اس ایک سال سے زائد کے عرصے نے ہمیں یہ بتایا کہ حرکت کتنی بڑی نعمت ہے۔ تحقیق یہ بتاتی ہے کہ ٹریول اور ٹورزم پر عائد پابندیوں کی وجہ سے جانوروں نے اپنا قدرتی ہیبیٹیٹ ری کلیم کرنا شروع کردیا یعنی وہ جگہیں جو کہ اُن سے انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے چھن گئی تھیں، انہیں واپس اُن کا حصول ہوگیا اور اُنہوں نے اپنے مسکن پھیلانا شروع کردیئے۔ اس ضمن میں تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ انسانوں کے قید ہونے سے ماحولیاتی آلودگی اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں واضح کمی واقع ہوئی۔
ایکو ٹورزم اور ہاسپیٹلیٹی سیکٹر
جب بھی لوگ ٹریول کرتے ہیں، اُنہیں قیام و طعام کی غرض سے ہوٹلوں کی ضرورت ہمیشہ رہا کرتی ہے۔ اس ضمن میں مقامی افراد ہوٹلنگ بزنس کی جانب مائل ہوتے ہیں جس سے ہاسپیٹلٹی سیکٹر کا فروغ ہوتا ہے۔ تاہم لوگ اکثر اس بات کا خیال نہیں رکھتے ہیں کہ ہوٹلز کے قیام کے عمل میں قدرتی بائیو ڈایورسٹی متاثر نہ ہو، تجاوزات عمل میں نہ آئیں اور ہوٹلز کو باقاعدہ فیزیبلٹی اسٹڈی کے ساتھ کام کیا جائے۔
اگر ہم نے پاکستان میں ماحولیات کے تحفظ کا کوئی مستقل حل نکالنا ہے تو ہمیں یہ کارہائے نمایاں کر گزرنا ہوگا کہ ہاسپیٹلیٹی سیکٹر کو ماحولیات کے لیے بنائے گئے قوانین کے تابع کرنا ہوگا۔ ہماری کلچرل انڈسٹری کا بھی سیاحت سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ سے ہی مقامی ثقافت کو دنیا کے سامنے آنے کا موقع ملتا ہے تاہم اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ چونکہ دنیا اب ایک گلوبل ویلیج بنتی جارہی ہے، سیاحت سے مقامی ثقافت کو کمزوری کا خطرہ لاحق ہے۔ ایکو ٹورزم کے فروغ کی جہاں بات ہورہی ہے، وہیں یہ بات بھی ہونی چاہئے کہ ہر کلچر میں اپنے تحفظ کا ایک قدرتی میکنزم موجود ہوتا ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسا مائنڈ سیٹ تیار کیا جائے جس سے ٹورزم کا عمل بھی چلتا رہے اور مقامی ثقافتوں کو تبدیلی کا خطرہ بھی لاحق نہ ہو۔ اس ضمن میں ایک اقدام تو یہ لیا جاسکتا ہے کہ مقامی لوگوں سے یہ کہا جائے کہ سیاحتی سیکٹر سے منسلک کاروبار میں وہ صرف اپنے کلچرل انسٹرومنٹس سے فائدہ اٹھائیں اور اُسی احاطے میں کسی اور تہذیب کے فن پاروں کی نمود و نمائش پر ایک حد مقرر کو تاکہ کوئی بھی کلچر ڈایلوٹ نہ ہوسکے۔
ایکو ٹورزم اور پالیسی سازی
یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ رواں حکومت نے ماحولیاتی تبدیلی کے تدارک کیلئے بہت سا کام کیا ہے۔ کورونا وبا کے بعد جب سے دنیا اپنے ٹریک پر واپس آئی ہے، پاکستان میں بھی سیاحت اپنے پری کووڈ لیولز پر واپس آگئی ہے۔ وادئ کاغان میں کیے گئے تجاوزات کے خلاف آپریشن سے لے کر ہنزہ میں پلاسٹک کے استعمال کو ریگولیٹ کرنے تک، بیلین ٹری سونامی سے لے کر متعدد پلانٹیشن ڈرائیوز تک بہت سارے ایسے عمل کیے گئے ہیں جس سے پاکستان میں ایکو ٹورزم کا مستقبل روشن دکھائی دے رہا ہے۔ اسی طرح سے شکار بھی ایک ایسا شوق ہے جس سے نہ صرف مقامی لوگ بلکہ بین الاقوامی لوگ بھی بہت محظوظ ہوتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس ضمن میں بھی ایک مربوط نظام کا نفاذ کردیا گیا ہے جس سے مقامی جانوروں کی آبادی پر خاصا اثر نہ پڑے۔ تاہم آنے والے ایام میں دنیا سے متعدد ایسی کیس اسٹڈیز اٹھانی چاہئیں جس سے ہمیں یہ آئیڈیا ہوسکے کہ ترقی یافتہ ممالک کیسے ایکو ٹورزم سے استفادہ کررہے ہیں اور اس ضمن میں ترقی پذیر ممالک کیا کرسکتے ہیں۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کے لیے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔