ترقی کی منازل طے کرتے انسان نے نئے انداز اپناتے ہوئے ٹیکنالوجی کی دنیا میں قدم رکھا اور ایک ڈیجیٹل دور کا آغاز ہوا۔ فاصلے مزید سمٹ گئے اور آواز کے ساتھ ویڈیو کے زریعے رابطے نے بہت کچھ آسان کر دیا۔ سیکنڈوں میں ایک دوسرے کے ساتھ جُڑ جانے والے رابطوں نے میلوں دور بیٹھے اپنوں اور پراؤں کے حالات جاننے کے قابل بنا دیا۔ لیکن ہر سہولت اتنے سستے میں دستیاب ہونے لگے تو اس پر بہت سے برے اثرات بھی بآسانی وارد ہونے لگتے ہیں۔ کچھ شر پسند ذہنوں نے انٹرنیٹ جیسی سہولت کا منفی استعمال کرتے ہوئے اسے غیر یقینی بنا ڈالا، تصاویر کی چوری اور ان کے غلط استعمال سے لےکر کسی مقام پر کیے جانے والے حملے کی آن لائن ویڈٰوز نے انٹرنیٹ کے منفی استعمال پر ہزاروں تشویشناک سوالات کو جنم دیا۔
سائبر کرائم کیا ہے؟
سائبر کرائم انٹرنیٹ کے زریعے کی جانے والی وہ غیر قانونی سرگرمی ہے جس کے تحت مجرم کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا کسی گیجٹ کے ذریعے کسی بھی شخص کا ڈیٹا، معلومات یا حساس نوعیت کے کاغذات چرا لے، ان میں ردو بدل کر دے، سسٹم ہیک کر دے، یا پھر کسی کو دھمکی آمیز پیغامات دے۔
سائبر کرائم کی اصطلاح میں کمپیوٹر، ڈیجیٹل آلات اور انٹرنیٹ کے دائرے میں شمار کی جانے والی اور استعمال ہونے والے نیٹ ورکس کے ذریعے شروع کی جانے والی کوئی بھی غیر قانونی سرگرمی شامل ہو سکتی ہے، اس میں کسی فرد، حکومت یا کارپوریٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والی معلومات کی دور دراز کی چوری بھی شامل ہو سکتی ہے ۔ اس میں آن لائن بینک سے لاکھوں روپے چوری کرنے سے لے کر سائبر صارفین کو ہراساں کرنا اور ان کا پیچھا کرنا بھی شامل ہے۔
عام طور پر سائبر کرائمز کی درجہ بندی اس طرح کی جا سکتی ہے
ہیکنگ
کمپیوٹر وائرس
نقصان دہ سافٹ ویئر یا میلویئر
سائبر غنڈہ گردی
انٹرنیٹ پر فالو کرنا، پیچھا کرنا
املاک کے حقوق
رشوت خوری
مالی فراڈ
الیکٹرانک دہشت گردی، بدتہذیبی اور بھتہ خوری
سوشل میڈیا پر نفرت انگیز تقاریر
ڈیجیٹل ڈاکہ
شناخت کی چوری
پاکستان میں سائبر کرائم سے نمٹنے کا قانون الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا ایکٹ، 2016 ہے جو پاکستان کے ہر شہری پر لاگو ہوتا ہے وہ جہاں بھی ہو اور ہر دوسرے شخص پر جو اس وقت پاکستان میں موجود ہو۔
قانون ایکٹ کے تحت سائبرکرائم کی درج ذیل اقسام ہیں
رسائی یا مداخلت
ایکٹ کی دفعہ 3، 4 اور 5 کے مطابق، ڈیٹا یا انفارمیشن سسٹم تک رسائی یا مداخلت اور ڈیٹا کی کاپی یا کسی دوسری جگہ ٹرانسفر کرنا
بغیر اجازت یا غیر مصدقہ رسائی
ایکٹ کی دفعہ 6،7 اور 8 کے مطابق بغیر اجازت نقل، اہم امور میں بغیر اجازت مداخلت یا زبردستی، ڈرانا، دھمکانا، خوف، عوام اور سوسائٹی میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کے ارادے سے مذکورہ بالا جرائم میں سے کسی ایک پر عمل کرنے کی دھمکی دینا۔
دہشت گردی سے متعلق
ایکٹ کی دفعہ 9 کے مطابق کسی بھی انفارمیشن سسٹم یا ڈیوائس کے ذریعے دہشت گردی سے متعلق کسی جرم کی تعریف کرنے کے ارادے سے معلومات تیار کرنا یا پھیلانا، یا دہشت گردی سے متعلق کسی جرم کے مرتکب ہونے والے کسی بھی فرد کو زبردستی، ڈرانے، دھمکی دینے کے ارادے سے مذکورہ بالا جرائم میں سے کسی کا ارتکاب کرنے کی دھمکی دینا۔
نفرت انگیز مواد
ایکٹ کی دفعہ 11 اور 12 کے مطابق انٹرنیٹ یا ڈیوائس کے ذریعے دہشت گردی کے لیے فنڈنگ، بھرتی کرنے کی ترغیب یا نفرت انگیز مواد کا پھیلاؤ بھی سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
الیکٹرانک جعلسازی یا دھوکہ دہی
ایکٹ کی دفعہ 13 اور 14 کے مطابق الیکٹرانک جعلسازی اور الیکٹرانک دھوکہ دہی یعنی کسی بھی انفارمیشن سسٹم، ڈیوائس یا ڈیٹا میں مداخلت کرکے عوام کو نقصان پہنچانا یا کوئی غیر قانونی دعویٰ کرنا۔ کسی بھی شخص کو جائیداد سے الگ کرنے کی وجوہات بنانا یا ایک معاہدہ کرنے کے لئے فراڈ کرنا، ڈیٹا تبدیل کرنا، حذف کرنا یا چھپانا وغیرہ
آلے یا ڈیوائس کی تیاری یا سپلائی
ایکٹ کی دفعہ 15 کے تحت کسی بھی معلوماتی نظام، ڈیٹا یا ڈیوائس کی تیاری، تخلیق، موافقت، برآمد، سپلائی، درآمد کرنے کی پیشکش، استعمال کرنے کے ارادے کے ساتھ یا یہ یقین کرنے کے لیے کہ یہ بنیادی طور پر کمیشن کے ارتکاب یا مدد کے لیے استعمال کیا جانا ہے۔
شناخت کا استعمال
ایکٹ کے سیکشن 16 کے تحت کسی دوسرے شخص کی شناخت یا اس سے متعلق معلومات کا بغیر اجازت یا بلاتصدیق استعمال، فروخت یا منتقلی۔
سم کا اجراء
ایکٹ کی دفعہ 17 کے مطابق کسی بھی دوسرے شخص کے نام پر بغیر اجازت سم کارڈ خریدنا یا حاصل کرنا۔
شخصی وقار کو نقصان پہنچانا
ایکٹ کی دفعہ 20 کے مطابق کسی شخص سے متعلق معلومات، ساکھ یا رازداری کو اسے نقصان پہنچانے کی غرض سے عوامی سطح پر اچھالنا یا بدنامی کرنا۔
ساکھ کو نقصان پہنچانا
ایکٹ کی دفعہ 21 کے مطابق کسی بھی شخص کو جنسی طور پر صریح فعل میں ملوث ہونے یا ملوث کرنے پر آمادہ کرنا یا ترغیب دینا۔ ساکھ کو نقصان پہنچانا، بدلہ لینا،نفرت پیدا کرنا یا کسی شخص کو بلیک میل کرنا۔
چائلڈ پورنوگرافی
ایکٹ کی دفعہ 22 کے مطابق کسی قانونی جواز کے بغیر ایسا مواد رکھنا جس میں چائلڈ پورنوگرافی کے عناصر موجود ہوں یا کس آلے کے ذریعے ایسا مواد تیار کرنا، کسی دوسرے کو دستیاب کرنا، تقسیم کرنا یا اپنے اور کسی دوسرے شخص کے لیے خریدنا سائبر کرائم میں شامل ہوتا ہے۔
بدنیتی پر مبنی کوڈ
ایکٹ کی دفعہ 23 کے تحت کسی انفارمیشن سسٹم یا ڈیٹا کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے کسی سسٹم کے ذریعے بدنیتی پر مبنی کوڈ لکھنا، پیش کرنا، دستیاب کرنا، تقسیم کرنا یا منتقل کرنا جس کے نتیجے میں بدعنوانی اور تباہی پھیلے۔
سائبر اسٹاکنگ
ایکٹ کی دفعہ 24 کے تحت انفارمیشن سسٹم نیٹ ورک، انٹرنیٹ ویب سائٹ، الیکٹرانک میل یا مواصلات کے ذرائع استعمال کرکے کسی بھی شخص کو دھمکانے یا ہراساں کرنے کے ارادے سے سائبر اسٹاکنگ کرنا۔
سائبر اسٹاکنگ کی اصطلاح میں شامل ہیں
کسی ایسے شخص سے بار بار ذاتی میل جول کو فروغ دینا جو واضح طور پر عدم دلچسپی کی نشاندہی کرتا ہو۔
انٹرنیٹ، ای میل، ٹیکسٹ میسج یا کسی دوسرے شخص کے الیکٹرانک مواصلات کی نگرانی کرنا
کسی شخص پر ایسے انداز میں نظر رکھنا یا جاسوسی کرنا جس کے نتیجے میں اس فرد کے ذہن میں تشدد یا سنگین خطرے یا پریشانی کا خوف ہو۔
کسی شخص کی تصویر کھینچنا یا ویڈیو بنانا اور اس کی اجازت کے بغیر اس طرح کی ویڈیو دوسروں کو دکھانا یا تقسیم کرنا جس سے نقصان کا اندیشہ ہو۔
دھوکہ یا نقصان کا باعث، سپیم
ایکٹ کی دفعہ 25 کے مطابق وہ جرم جس کے تحت دھوکہ، گمراہی، غیر قانونی یا گمراہ کن معلومات پھیلائی جائے، یا غیر قانونی معلومات وصول کرنے والے کی اجازت کے بغیر اور غلط فائدے کے لیے منتقل کی جائے۔
پاکستان میں سائبر کرائم کے قوانین
اس وقت پاکستان میں سائبر کرائم کے تین قوانین ہیں۔ یہ قوانین پاکستان میں انٹرنیٹ جرائم کے مختلف زمروں میں آتے ہیں۔
الیکٹرانک ٹرانزیکشن آرڈیننس 2002 ای ٹی او
الیکٹرانک/ سائبر کرائم بل 2007
الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام ایکٹ 2016 پیکا
الیکٹرانک ٹرانزیکشن آرڈیننس 2002
2002 میں متعارف کرایا گیا، الیکٹرانک ٹرانزیکشنز آرڈیننس (ای ٹی او) جسے قانون سازوں نے مرتب دیا، آئی ٹی سے متعلق پہلی قانون سازی کے طور پر سامنے آیا۔ یہ پہلا قدم تھا جس نے قانونی تقدس اور مقامی ای کامرس انڈسٹری کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط بنیاد کے طور پر کام کیا۔
پاکستان میں اس سائبر کرائم قانون کا ایک بڑا حصہ سائبر کرائم سے متعلق غیر ملکی قانون سے متاثر تھا۔ اس کے 43 سیکشنز ہیں جو پاکستان میں مختلف قسم کے انٹرنیٹ جرائم سے متعلق ہیں۔ پاکستان میں سائبر کرائم کا یہ قانون ای کامرس انڈسٹری سے متعلق درج ذیل 8 اہم شعبوں سے متعلق ہے۔
الیکٹرانک دستاویزات کی پہچان
الیکٹرانک کمیونیکیشنز
ڈیجیٹل دستخطی نظام اور اس کے واضح نتائج
ویب سائٹ اور ڈیجیٹل دستخطوں کے سرٹیفیکیشن فراہم کرنے والے
اسٹامپ ڈیوٹی
تصدیق شدہ کاپیوں کی تصدیق
دائرہ کار، عملداری
جرائم
الیکٹرانک/سائبر کرائم بل آرڈیننس 2007
الیکٹرانک جرائم کی روک تھام یا سائبر کرائمز آرڈیننس (پیکو) 2007 میں منظور کیا گیا تھا۔ پاکستان میں یہ سائبر کرائم قانون درج ذیل الیکٹرانک جرائم سے نمٹتا ہے۔
سائبر دہشت گردی
ڈیٹا کا نقصان
الیکٹرانک فراڈ
الیکٹرانک جعلسازی
غیر مجاز رسائی
سائبرسٹاکنگ
سائبر سپیمنگ/ سپوفنگ
الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام یا سائبر کرائمز آرڈیننس (پیکو) کے مطابق پاکستان میں سائبر جرائم پیشہ افراد کو مختلف سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان میں مختلف قسم کے سائبر کرائمز کے لیے چھ ماہ قید سے لے کر بعض اوقات موت کی سزا بھی شامل ہو سکتی ہے۔ قوانین کا اطلاق قومیت یا شہریت سے قطع نظر ہر اس شخص پر ہوتا ہے جو پاکستان میں سائبر کرائمز کا ارتکاب کرتا ہے۔
الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا ایکٹ (2016)
الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا ایکٹ (پیکا) 2016 میں متعارف کرایا گیا تھا جو پاکستان میں سائبر کرائم کی مختلف اقسام کے لیے ایک جامع فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ یہ پاکستان کے سائبر کرائم قوانین میں سے ایک ہے جو سائبر کرائم بل 2007 کے مطابق ہے۔ یہ پاکستان میں درج ذیل انٹرنیٹ جرائم سے متعلق ہے۔
ڈیٹا تک غیر قانونی رسائی (ہیکنگ)
سروس اٹیک سے انکار، ڈی او ایس اٹیک
الیکٹرانک جعلسازی اور الیکٹرانک فراڈ
سائبر دہشت گردی
سائبر کرائم پر سزائیں
الیکٹرانک کرائم کی روک تھام کا ایکٹ پیکا پاکستان میں سائبر مجرموں کے لیے ذیل میں دی گئی سزاؤں سے متعلق ہے۔
بغیر اجازت کے اہم معلوماتی نظام تک رسائی پر تین سال تک قید، 10 لاکھ روپے جرمانہ، یا دونوں ہو سکتے ہیں۔
بے ایمانی یا دھوکہ دہی کے ساتھ اہم معلوماتی نظام میں خلل ڈالنے پر سات سال تک قید، ایک کروڑ روپے جرمانہ یا دونوں ہو سکتے ہیں۔
دہشت گردی سے متعلق جرم میں ملوث ہونے پر سات سال تک قید، ایک کروڑ روپے جرمانہ یا دونوں ہو سکتے ہیں۔
جارحانہ استعمال کے لیے الیکٹرانک ڈیوائس کی درآمد، برآمد یا سپلائی پر چھ ماہ تک قید، 50 ہزار روپے جرمانہ یا دونوں۔
ڈیٹا کی خلاف ورزی میں ملوث ہونے پر تین سال تک قید، 50 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں ہو سکتے ہیں۔ اس میں رضامندی کے بغیر کسی کے ذاتی ڈیٹا کی آن لائن تقسیم شامل ہوسکتی ہے۔
شکایت کیسے کی جائے؟
اگر کسی شہری کو انٹرنیٹ پر ہراساں کیے جانے، دھوکہ دہی یا اس طرح کی کسی اور جعلسازی کا سامنا ہو تو شہری اپنے مسائل تحریری طور پر ایف آئی کے دفاتر میں جمع کروانے کے علاوہ اس ای میل ایڈریس پر اپنی شکایات بھیج سکتے ہیں، اس کے علاوہ سائبر کرائم سیل کی ہیلپ لائن 9911 پر کال کر کے اپنی شکایت درج کرا سکتے ہیں۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔