زمانہ قدیم کی تعمیراتی صلاحتیوں کا اگر دورِ جدید کے فنِ تعمیر سے موازنہ کیا جائے تو بلاشبہ آج بھی تعمیراتی صنعت کہیں نہ کہیں تاریخی ورثہ کی حامل عمارتوں کے فنِ تعمیر کی مرہونِ منت دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دور جدید کے تعمیراتی منصوبوں میں آپ کو پتھروں کی بنی سلیں یا عمارتی لکڑی کا استعمال نمایاں نظر آئے گا۔
خالقِ کائنات کی جانب سے عطا کردہ قدرتی وسائل میں درخت نباتات کی اس فیملی کا حصہ ہیں جن کا عام طور پر زیریں حصہ ایک مضبوط تنے پر مشتمل ہوتا ہے جو نشونما پانے کے ساتھ ہی شاخوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں اور پھر ان شاخوں پر پتے، پھول اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔
کائنات میں انگنت اقسام کے درخت موجود ہیں اور ان میں سے اکثریت ایسے درختوں کی بھی ہے جن سے حاصل ہونے والی لکڑی تعمیراتی سرگرمیوں، فرنیچر اور گھروں کی تزئین و آرائش میں استعمال کی جاتی ہے۔
عمارتی لکڑی پھل دار درختوں کی لکڑی سے مختلف ہوتی ہے۔ عام طور پر عمارتی لکڑی کے درخت دو اقسام کے ہوتے ہیں جن میں سے ایک تو وہ درخت ہیں جو اونچائی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور تیزی سے پھلتے پھولتے ہیں جیسا کہ بانس کے درخت۔۔۔۔۔ دوسری جانب ایسے درخت جو لمبائی کے ساتھ ساتھ چوڑائی میں بھی پھلتے پھولتے ہیں جیسا کہ دیودار، چیڑ، شیشم وغیرہ کے درختوں کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے۔
دور جدید کی تیز رفتار زندگی میں قدرت کے وجود کا احساس لکڑی سے بنے گھر کے بغیر شاید ممکن نہیں۔۔۔۔ اور یہی احساس ہمیں فطرت کے قریب رہنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ جدید دور کے فنِ تعمیر میں لکڑی کا استعمال ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ لکڑی ایک پائیدار، محفوظ اور مضبوط تعمیراتی مواد مٹیریل ہے جسے باآسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے حتیٰ کہ اگر گھر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا ہو تو اسی لکڑی کو دوبارہ بھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
گھروں کی تعمیر اور تزئین و آرائش میں لکڑی کے استعمال سے متعلق کچھ مفید معلومات
تعمیرِ مسکن میں لکڑی کا استعمال مگر کیسے!
تعمیراتی اعتبار سے کچھ علاقے ایسے ہوتے ہیں جہاں کی مٹی تھوڑی ریتلی یا جلد نیچے زمین میں بیٹھ جانے والی ہوتی ہے۔ تو ایسی جگہوں پر اینٹوں سے گھر بنانے کی بجائے لکڑی کے تعمیر کردہ گھروں کی ترجیح دی جاتی ہے۔ تعمیراتی لکڑی مختلف خصوصیات کی حامل ہوتی ہیں جن میں پانی کے خلاف مزاحمت جیسی خصوصیت بھی شامل ہے۔ درختوں کی لکڑی سے بنائے گئے مکانات تجدید کے قابل، ماحول دوست اور پائیدار ہوتے ہیں۔ اینٹوں، پتھر اور بجری کے مقابلے میں لکڑی کا گھر تعمیر کرنے میں وقت کی بچت ہوتی ہے۔ سب سے اہم بات لکڑی کے گھر بناتے وقت اس پر موسمی حالات اثرانداز نہیں ہوتے جبکہ اینٹوں کے مکانات بناتے وقت موسم خراب ہونے کی صورت میں کام بند کرنا پڑتا ہے۔
مصنوعی لکڑی کا استعمال مگرکیسے؟
عصر حاضر میں لکڑی کا نعم البدل بھی دریافت کر لیا گیا ہے۔ جس طرح چمڑے کا نعم البدل ریگزین دریافت کر لی گئی ہے اسی طرح لکڑی کے مصنوعی نعم البدل مختلف اشکال میں سامنے آئے ہیں مثلاً (i)۔ پلائی ووڈ (ii)۔ ہارڈ بورڈ اور فائبر بورڈ قابل ذکر ہیں۔ دروازے اور کھڑکیاں لکڑی سے بنائی جاتی ہیں لیکن آج کل ان کے بھی نعم البدل مارکیٹ میں آگئے ہیں۔
لکڑی کی تعمیرات میں دیمک کنٹرول پراسیس لازمی کروائیں
ٹیک کی لکڑی دُنیا کی شاندار ترین لکڑیوں میں سے ایک مانی جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دُنیا بھر میں جتنی لکڑیاں بھی عمارتوں میں لگائی جاتی ہیں یا بلڈنگ یا بنگلہ بنایا جاتا ہے ان میں دیمک کنٹرول کا پروسیس شامل ہوتا ہے۔ دیمک کنٹرول کے ماہرین کی رائے ہے کہ گھروں کی بنیادوں میں دیمک کو ختم کرنے کا پروسیس کروا لیا جائے تو بہتر ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ایک زمانے میں بلڈرز یا مالک مکان کو دیمک ختم کرنے کے پروسیس کی سرٹیفکیشن لینی ہوتی ہے۔
لکڑی کی تراش خراش
دیکھنے میں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درخت گو گرایا جاتا ہے اور اسے تراش کر لکڑی بنادی جاتی ہے تمام تر درختوں کی لکڑی میں گودا ہوتا ہے اور گودا اس کے مرکزی حصے میں ہوتا ہے اس گودے کو سکھایا جاتا ہے اور اگر درخت پرانا ہو تو یہ گودا خود ہی سوکھ جاتا ہے درخت جتنا پرانا ہو جائے پختہ لکڑی کی تعداد بڑھتی رہتی ہے۔ لکڑی میں بیرونی کچی لکڑی ہوتی ہے، اس کی مضبوطی کم رہتی ہے اور دیمک اسے ختم کر دیتی ہے اس لئے جو بنگلہ بناتے ہیں انہیں لکڑی کی اقسام اور اس کی صفات کا علم ہونا چاہئے لکڑی کی کٹائی کا طریقہ بھی آتاہے ۔
درختوں کی کٹائی ان کی عمر مکمل ہونے پر کی جائے
ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ گھروں اور دیگر استعمال جس میں فرنیچر بھی شامل ہے لکڑی سے کام نہ لیا جائے۔ اس کے نعم البدل کو کام میں لایا جائے لیکن لکڑی کی اپنی خوبصورتی رہتی ہے یہ بھی ماہرین کہتے ہیں کہ درختوں کی ایک طبعی عمر ہوتی ہے، اس کے بعد ان کو کاٹنا ضروری ہو جاتا ہے۔ مختلف درختوں کی عمر مختلف ہوتی ہے، بعض درختوں کی عمر 5سال ہوتی ہے جیسا کہ ’’سرس‘‘ کا درخت بعض کی 20سے 25سال جیسا کہ نم اور شیشم وغیرہ کا درخت اور بعض درختوں کی عمر 200 سال سے بھی زیادہ ہوتی ہے جیسے ساگوان کا درخت۔ جب کوئی درخت اپنی طبعی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کی نشو و نما کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ پتوں کا رنگ زرد پڑ جاتا ہے اور پتوں کا سائز بھی چھوٹا ہو جاتا ہے۔ اس لئے درخت عمارت یا فرنیچر کے لئے اس وقت کاٹے جائیں جب وہ اپنی طبعی عمر کو پہنچ جائیں یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ درختوں کو کم تعداد میں کاٹا جائے اور زیادہ تعداد میں لگایا جائے۔ کیونکہ دنیا میں جس طرح کی ترقی ہو رہی ہے اس سے دنیا میں مختلف کیمیائی مادے بڑھ رہے ہیں فیکٹریوں کا فضلہ اور دھواں انسان کیلئے دشمن جان ہے، اس لئے آج کل گھر بنائے جاتے ہیں تو کوشش کی جاتی ہے کہ چاروں طرف سبزہ اُگایا جائے۔ ماہرین کے مطابق کسی ملک میں جنگل 25 فیصد ہونا چاہئے پاکستان میں3فیصد سے بھی کم ہے فرنیچر اور عمارتی لکڑی بنانے والے غیر قانونی طور پر بھی لکڑی کاٹتے ہیں۔ جن کو ٹمپر مافیا کہا جاتا ہے اس کے لئے محکمہ جنگلات کے لوگ کام کرتے ہیں، لیکن اب زیادہ گھروں کو نعم البدل مصنوعی لکڑی کو کام میں لایا جاتا ہے اس کے باوجود عمارتی لکڑی کے بغیر خوبصورتی دکھائی نہیں دیتی ہے۔ اس لئے عمارتی لکڑی کے لئے درختوں کو بعض اوقات بےدریغ کاٹا جاتا ہے جو غیر قانونی ہے۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کے لیے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ایک نئی ویب سائٹ…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)کی انتظامیہ نے شہریوں کو…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام کمرشل پلاٹس…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو پلاٹوں کی نیلامی…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام ہونے…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے وفاقی دارالحکومت میں…