معیشت کو راہِ راست پر لانے کے لئے حکومت نے اپریل 2020 میں تعمیراتی صنعت کے لئے 100 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا۔ تقریباً ہر مُلک میں تعمیراتی شعبے کو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے اور یہ بات پاکستان کے لئے بھی سچ ہے۔
تعمیرات، معیشت کی ریڑھ کی ہڈی
معیشت کو راہِ راست پر لانے کے لئے یہ دنیا بھر میں ایک آزمودہ راستہ ہے کہ تعمیراتی صنعت کو نہ صرف بحال کیا جائے بلکہ اُسے فعال بھی رکھا جائے۔ برازیل، چین اور ہندوستان ایسے ممالک ہیں جنہوں نے تعمیراتی سرگرمیوں کو بڑھا کر ہی اپنی معیشت کو بہتر کیا ہے۔
تعمیرات کا مُلکی جی ڈی پی میں عمل، کتنا ہے اور کتنا ہونا چاہیے؟
باضابطہ طور پر تعمیراتی شعبے نے گذشتہ پانچ مالی سالوں میں پاکستان کے جی ڈی پی میں 2.3 فیصد سے 2.85 فیصد کے درمیان حصہ ڈالا ہے مگر معیشت دانوں کی یہ رائے ہے کہ اِس کی سطح کُل جی ڈی پی کے 10 اور 12 فیصد کے درمیان ہونی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صنعت ایلومینیم، اینٹ، کیبلز، سیمنٹ، فکسچر، شیشہ، کچن اور باتھ روم کی متعلقہ اشیاء، سنگ مرمر، پینٹ، اسٹیل، ٹائلز، گودام اور لکڑی سمیت 42 سے زیادہ ذیلی شعبوں کو ایندھن فراہم کرتی ہے۔
کیونکہ پاکستان کی کُل افرادی قوت کا آٹھ فیصد حصہ یہاں ملازم ہے لہذا اس سے مجموعی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام اور مراعاتی پیکج کے دو مقاصد
یہ تحریر مراعاتی پیکج کے ذکر سے شروع ہوئی تھی سو اُسی پر واپس آتے ہیں۔ پیکیج کے مقاصد دو ہیں۔ پہلا مقصد تو یہ ہے کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کے ذریعہ نچلے عوامی طبقے کے لیے سستی رہائش کا بندوبست کیا جائے جس کو پانچ سالوں میں پچاس لاکھ مکانات کی تعمیر کے ہدف میں پنہاں رکھا گیا ہے۔
دوسرے ہدف کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لئے حکومت نے جولائی میں ہاؤسنگ کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ سے متعلق قومی کمیٹی قائم کی۔ کمیٹی کے مقاصد میں تعمیراتی شعبے کی نگرانی اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ پیدا ہونے والی رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ تعمیراتی سرگرمیاں تیزی سے بڑھتی رہیں۔
کچھ شرائط اور ريرا کا قیام
تعمیراتی پیکیج میں بڑے پیمانے پر بلڈرز، ڈویلپرز اور پراپرٹی مالکان کے لئے ٹیکس مراعات، چھوٹ اور سبسڈی شامل ہیں۔ مراعات سے فائدہ اٹھانے کے لئے بلڈرز اور ڈویلپرز کو 31 دسمبر 2020 تک فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے پورٹل پر اپنے منصوبوں کی رجسٹریشن کرنی ہوگی اور 30 ستمبر تک بنیادی ڈھانچے کو مکمل کرنا ہوگا۔
اس کے علاوہ 2022 تک نجی تعمیراتی صنعت کو فروغ دینے اور اُس کی حوصلہ افزائی کے لئے ایک کنسٹرکشن انڈسٹری ڈیویلپمنٹ بورڈ قائم کیا جائے گا۔
علاوہ ازیں پراپرٹی کی لین دین کے سلسلے میں اس شعبے کو ریگولیٹ کرنے کے لئے ایک رئیل اسٹیٹ ریگولیریٹی اتھارٹی کی تشکیل کا عمل بھی یقینی بنایا جائے گا۔ ریئل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کا بل سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے پاس ہوچکا ہے تاہم اس کا قیام عمل میں آنا باقی ہے۔
ماہرین کی رائے کی روشنی میں
ماہرین کے مطابق ترغیبات میں سب سے موثر یہ ہے کہ لوگوں کو تعمیراتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے اپنی آمدنی کے ذرائع کا بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک اہم عنصر ہے جو سرمایہ کاری کو راغب کرے گا۔
کوئی سوال نہ پوچھے جانے کی پالیسی بلڈرز کو غیر منقولہ جائیداد اور تعمیرات میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دے گی۔ اس اقدام سے ایسے افراد کو قانونی کور فراہم کیاجائے گا جو اپنی رقم پراپرٹی میں انویسٹ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اوورسیز کمیونٹی کی بھی حوصلہ افزائی کرے گی جسے مکان خریدنے یا بنانے کے لئے درکار ایک قدرے بوجھل کاغذی کام سے بھی بچایا جائے گا۔
اُن بلڈرز کے لئے جو نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام میں حصہ ڈالیں گے، اُنھیں ٹیکس میں 90 فیصد تک چھوٹ دی جائے گی اور معتدد ماہرین کی رائے یہ ہے کہ اس سے معیشت کو کافی حد تک فروغ ملے گا۔ یہاں تک کہ اگر پہلے مرحلے میں اگر پانچ لاکھ یونٹ بنائے جاتے ہیں تو انہیں مزدوری اور تعمیراتی سامان کی ضرورت ہوگی لہذا اس سے متعلقہ تمام شعبوں کو فائدہ ہوگا۔
تعمیراتی پیکج کا اعلان، چار ماہ بعد کی صورتِ حال
تعمیراتی پیکیج کا اعلان صرف چار ماہ قبل ہوا تھا اور اس کا پورا نتیجہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق 4812 منصوبوں کی رجسٹریشن کے لئے مسودہ تیار کیا گیا ہے اور وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز کو توقع ہے کہ 2020 کے آخر تک 400 ارب روپے کے منصوبے رجسٹرڈ ہوجائیں گے۔
تعمیر و ترقی کا خواب حقیقت ہونے کا ایک نشان یہ بھی ہے کہ ایسوسیشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز نے متعدد تعمیراتی منصوبوں میں 1370 بلین روپے کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے جن میں نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے لئے رہائشی منصوبوں کے علاوہ، کراچی میں 30 سے 40 اونچی عمارتوں کا قیام اور ملک بھر میں کم از کم ایک ہزار مزید منصوبے شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق مارکیٹ میں کسی حد تک مثبت جذبات پیدا ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی سیمنٹ اور اسٹیل کی فروخت جیسے اشارے نے محتاط امید پیدا کردی ہے کہ تعمیراتی پیکیج سے تاروں اور کیبلز سمیت تعمیراتی سامان کی مانگ میں اضافہ ہوگا اور مجموعی طور پر معیشت کا پہیہ چلے گا۔
وزیرِ اعظم کے اعلان کردہ کنسٹرکشن پیکج کے نکات کیا تھے؟
سرمایہ کاروں، ڈویلپرز اور بلڈرز سے ان کی آمدنی کے ذرائع کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی۔
ٹیکس، پراپرٹی کی کُل قیمت کے بجائے، پراپرٹی کے سائز (فی مربع فٹ یا مربع گز) کے حساب سے لاگو کیا جائے گا۔
تعمیراتی سامان پر (اسٹیل اور سیمنٹ کے علاوہ) اور کچھ سروسز (جیسے پلمبنگ) پر بلڈرز اور ڈویلپرز کو ٹیکس ودہولڈنگ کی ضرورت نہیں ہوگی۔
اگر بلڈرز اور ڈویلپرز نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام میں حصہ لیں تو لاگو کردہ ٹیکسوں میں 90 فیصد تک کی کمی ہوگی۔
تعمیراتی سامان پر عائد سیلز ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی کو کم کیا جائے گا۔
پانچ اور دس مرلہ رہائشی پلاٹوں کے مالکان کو مکانات تعمیر کرنے کے لئے آسان شرائط پر قرض ملے گا۔
اپنے پہلے مکانات کی تعمیر اور خرید و فروخت بیچنے والے افراد کو ایڈوانس ٹیکس، کیپٹل گینز ٹیکس، اسٹامپ ڈیوٹی ٹیکس اور رجسٹریشن فیس سمیت متعدد ٹیکسوں اور فیسوں سے مستثنیٰ کیا جائے گا۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کے لئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔