جب بھی کوئی مُلک کسی دوسرے مُلک پر قابض ہوتا ہے تو وہ اپنا فنِ تعمیر اور ثقافت بھی اپنے ساتھ لے کر آتا ہے۔ پھر اُس بنیاد پر اُس مُلک میں نئی نئی تعمیرات کی جاتی ہیں اور اپنے نقوش چھوڑے جاتے ہیں۔ یہ تعمیرات یا تو حکمران مُلک کے فنِ تعمیر کا مکمل عکاس ہوتی ہیں یا پھر قابض اور مقبوضہ مُلک کے فنِ تعمیر کا امتزاج ہوتی ہیں۔ ایسے فنِ تعمیر کو کولونیل آرکیٹیکچر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
برصغیر کے فنِ تعمیر پر برطانوی دورِ حکومت کے اثرات
برصغیر پر برطانیہ نے 1857ء سے 1947ء تک حکومت کی۔ اُن کے دورِ حکومت سے پاکستان کی ثقافت اور رہن سہن میں بھی بڑی تبدیلیاں آئیں۔ برطانوی راج نے برصغیر کے فنِ تعمیر کا انداز یکسر بدل دیا۔ آئیے کچھ ایسی تعمیرات کے بارے میں آپ کو دلچسپ معلومات فراہم کرتے ہیں جو انگریز دور میں کی گئیں۔
لاہور میوزیم
لاہور میوزیم کے ڈیزائن اور تعمیر کا سہرا اپنے وقت کے مشہور آرکیٹیکٹ سر گنگا رام کے سر جاتا ہے۔ یہ مال روڈ لاہور پر واقع ہے۔ اِسے 1865ء میں تعمیر کیا گیا۔ اِس کی شہرت دنیا کے طول و عرض تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ سُرخ اینٹوں سے بنی دو منزلہ عمارت ہے۔ اِس میوزیم کی خاص بات یہ کہ اِس میں مغلیہ سلطنت، برطانوی دورِ حکومت اور سکھ دورِ حکومت کے نوادرات سجائے گئے ہیں۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور
یہ یونیورسٹی لاہور کی زمانہ قدیم کی یونیورسٹی ہے۔ یہ 1861ء میں تعمیر کی گئی۔ یہ اپنی طرز کی ان چند عمارات میں سے ایک ہے جن میں آپ کو برطانوی تعلیمی اداروں کے فنِ تعمیر کا عکس نظر آتا ہے۔ وہ مُلک جہاں مغل فنِ تعمیر کا راج تھا، اِس طرح کی عمارات نے جدت کی بنیاد رکھی اور یوں برصغیر کی شکل بدلتی چلی گئی۔ یہ پہلے کالج ہوا کرتا تھا جس کو 2002ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملا۔ اِس یونیورسٹی سے ایسے طلباء نے تعلیم حاصل کی جو دنیا میں بڑی شخصیات بن کر ابھریں۔ ان میں علامہ محمد اقبال، پطرس بخاری، ڈاکٹر ثمرمبارک مند وغیرہ شامل ہیں۔
ایچیسن کالج، لاہور
اس کا شمار پاکستان کے اعلیٰ پائے کے تعلیمی اداروں میں کیا جاتا ہے۔ سن 1886ء میں اِس کی تعمیر مکمل کی گئی۔ عمارت کا ڈیزائن بھائی رام سنگھ نے تیار کیا اور اِس کی تعمیر سر گنگا رام نے کروائی۔ یہ بھی کسی انگریز ملک کے بھلے تعلیمی ادارے کی منظر کشی کرتا ہے۔ برصغیر کے پرانے انداز کے اسکولوں کو اس ڈیزائن کے اسکولوں نے جدت بخشی۔
وزیر اعلیٰ ہاؤس، نتھیا گلی
یہ عمارت 1800ء میں قائم کی گئی تھی جس کو کے پی کے ہاؤس بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وزیر اعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ یہ نتھیا گلی کے سرسبز و شاداب پہاڑوں کے درمیان واقع ہے جس کے اردگرد موجود ہرے بھرے درخت دلفریب منظر پیش کرتے ہیں۔ یہ انگریزوں کے شاہانہ طرزِ زندگی کی عکاسی کرتی ہے۔ عمارت میں داخل ہوتی ہی کالے رنگ کی دلکش اینٹوں سے بنا فرش آپ کا استقبال کرتا ہے جو بعد میں برآمدے میں داخل ہوتے ہی سفید رنگ میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
سفید سنگِ مرمر سے بنا یہ برآمدے عمارت کے اردگرد بنایا گیا ہے۔ برآمدے میں موجود فرینچ ڈیزائن کی سفید کھڑکیاں اور دروازے فرانسیسی اور برطانوی فنِ تعمیر کا خوب رنگ پیش کرتی ہیں۔ لکڑی کے ستون جو پورے برآمدے میں موجود ہیں اور تکون نما چھت کو تھامے ہوئے ہیں، بالکل ایسا منظر پیش کرتے ہیں جیسے لندن میں موجود کسی انگریز کا ولاء ہو۔ انگریز دور کی اس طرح کی تعمیرات کا کلچر پورے برصغیر میں پھیلتا گیا اور یوں ایک کے بعد ایک، ایسی مزید تعمیرات ہوتی چلی گئیں جو آزادی کے بعد بھی جاری رہیں۔
ڈآک بنگلہ، چھانگلہ گلی
صوبہ خیبر پختونخوا کے گلیات ڈویژن کی طرف اگر نظر دوڑائیں تو ایسی بہت ساری مثالیں ملیں گی جو انگریز دور کے فنِ تعمیر کی عکاسی کرتی ہیں۔ انہی میں سے ایک ڈاک بنگلہ بھی ہے۔ یہ 1875ء میں قائم ہوا۔ چھانگلہ گلی کے مقام پر واقع یہ خوبصورت ڈاک بنگلہ برطانیہ کے کسی ڈاک دفتر کا منظر پیش کرتا ہے۔ بالکل اسی طرزِ تعمیر پر قائم کی گئی یہ عمارت ڈاک لے کے جانے والے سرکاری ملازمین کی آرام گاہ کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔ وہ ڈاکیہ جو ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کر کے ڈاک لے کے جاتے تھے، ان کے لئے ڈاک بنگلہ سرکاری آرام گاہ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔
گھنٹہ گھر، فیصل آباد
یہ یادگار برطانوی راج کے دوران تعمیر کی گئی اُن عمارات میں سے ایک ہے جو اب بھی اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔ اس کی بنیاد 14 نومبر 1903ء کو پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سرچارلس ریواز نے رکھی۔ اس کا فنڈ اس وقت 18 روپے فی اسکوئیر کے حساب سے اکٹھا کیا گیا۔
یہ عمارت آٹھ مارکیٹوں کے عین درمیان میں تعمیر کی گئی۔ اگر انتہائی بلندی سے نیچے دیکھا جائے تو عمارت اور اس کے اردگرد موجود تجارتی تعمیرات ایسا منظر پیش کرتی ہیں جیسے برطانیہ کا قومی جھنڈا ہو کیونکہ برطانوی قومی جھنڈا اِسی نقشے کی طرز پر بنا ہے۔
نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں ایسی کئی تعمیرات ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو برطانوی فنِ تعمیر کا بھرپور نمونہ ہیں۔ کولونیل آرکیٹیکچر نے برصغیر میں نہ صرف نئے فنِ تعمیر کی بنیاد رکھی بلکہ پرانے دور کے فنِ تعمیر کو بھی کسی حد تک پسِ پُشت ڈال دیا۔ پاکستان اور بھارت میں حویلی کی ثقافت دھیرے دھیرے دم توڑنے لگی اور لوگ بڑی بڑی عمارات اور فلیٹس میں منتقل ہونا شروع ہو گئے۔
سرکاری عمارات تو مکمل طور پر برطانوی فنِ تعمیر کے رنگ میں ڈھل گئیں اور مستقل طور پر سرکاری تعمیر کے لئے برطانوی آرکیٹیکچر ہی معیار بن گیا۔ الغرض برطانوی راج نے برصغیر کے فنِ تعمیر پر گہرے نقوش چھوڑے۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔