توانائی کے عالمی ادارے اور ورلڈ بینک کے اشتراک میں ماحول دوست توانائی پر تیار ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ سال ماحول دوست توانائی میں 150 ارب ڈالر سے کم سرمایہ کاری کی گئی جبکہ 2050ء تک زہریلی گیسوں کے اخراج کو صفر کی شرح پر لانے کے لیے 2030ء تک اس سرمایہ کاری میں سالانہ 7 گنا اضافہ کرنا ناگزیر ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ترقی پذیر معیشتوں کو ماحول دوست توانائی پیدا کرنے کے لیے جتنا سرمایہ درکار ہے وہاں تک ان ممالک کی آسان رسائی ممکن بنائی جا سکے۔ اس سارے عمل میں عالمی مالیاتی ادارے، ڈونرز، کثیرالجہتی ترقیاتی بینک اور دیگر شراکتی دارے اپنا کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کے باعث دنیا کو ماحول دوست توانائی یعنی کِلین اِنرجی پر منتقل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ سارے عمل میں اگر مساوی حقوق کا خیال نہ رکھا گیا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مابین ماحول دوست توانائی کی پیداوار میں سرمایہ کاری کے حجم میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر ترقی پذیر ملکوں میں ماحول دوست توانائی کے حصول میں سات گنا اضافہ نہ کیا گیا تو پیرس معاہدے کے اہداف کا حصول مشکل ہوگا۔
ان حقائق کی روشنی میں ایک بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ دنیا بھر کے ممالک کو ماحول دوست توانائی کے حصول پر برق رفتاری سے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ماحولیاتی تبدیلی کے انتہائی خطرناک اثرات سے دنیا کو محفوظ رکھا جاسکے اور روئے زمین پر رہنے والے انسانوں کے لیے ایک زیادہ صحت مند اور خوشحال مستقبل تعمیر کیا جاسکے جہاں ہر شخص کو مستحکم اور سستی توانائی کے وسائل دستیاب ہوں۔
ماحول دوست توانائی کے حصول کی دوڑ میں نئے تفرقات سے اجتناب
تحقیق کے مطابق آنے والے عشروں میں سب سے زیادہ زہریلی گیسوں کا اخراج اُبھرتی ہوئی اور ترقی پذیر معیشتوں والے ممالک سے ہوگا کیوںکہ معاشی نمو، صنعت کاری اور بڑھتی ہوئی آبادی کے پیشِ نظر نئے شہروں کو بسانے کا عمل سب سے زیادہ انہی ممالک میں وقوع پذیر ہونے کا قوی امکان ہے۔ دنیا کے لیے اجتماعی چیلنج یہ ہے کہ وہ ان ملکوں کو ترقی کے لیے انتہائی کاربن اخراج والا راستہ اپنانے سے روکے جو ماضی میں آج کی ترقی یافتہ معیشتیں اختیار کرچکی ہیں۔
دنیا میں جس طرح توانائی کے مؤثر استعمال کو یقینی بنانے کے لیے شمسی توانائی، پون توانائی اور بجلی پر چلنے والی گاڑیوں کے استعمال میں اضافہ کیا جارہا ہے اُس سے مستقبل کی عالمی معیشت پروان چڑھے گی۔ ہمیں ایسے راستے کو اپنانا ہے کہ جس سے ناصرف ان کروڑوں افراد کو بجلی تک رسائی حاصل ہو جو موجودہ دور میں اس بنیادی ضرورت سے محروم ہیں بلکہ ماحول دوست توانائی استعمال کرنے کے لیے ان معاشرتی حلقوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے جو روزمرہ امور میں کھانا پکانے کے لیے ماحول کو آلودہ کرنے والا ایندھن استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ خود ان حلقوں کی بقاء کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔
بظاہر ماحول دوست توانائی کی پیداوار میں سرمایہ کاری کرنے سے بڑے پیمانے پر فوائد حاصل ہونے کی توقع ہے تاہم اس عمل میں اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہوگا کہ یہ فوائد عالمی سطح پر ہر ممکن حد تک سب تک پہنچنے چاہئیں۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق اور جن ممالک کو جدید ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہے اور وہ جو اس سے محروم ہیں ان کے درمیان فرق کو ختم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ دنیا کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ماحول دوست توانائی کے حصول کی دوڑ میں ہم نئے تفرقات پیدا نہ کریں۔
ماحول دوست توانائی کے لیے بین الاقوامی اداروں کا کلیدی کردار ناگزیر ہے
ایک مسئلہ یہ ہے کہ کووِڈ-19عالمی وَبائی مرض نے ترقی پذیر ممالک میں غیرملکی سرمایہ کاری کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ افریقا اور جنوب مشرقی ایشیا میں ماحول دوست توانائی میں سرمایہ کاری لانا انتہائی مشکل کام ہے۔ جبکہ یورپ اور شمالی امریکا کی ترقی یافتہ معیشتوں میں یہ سرمایہ کاری لانا نسبتاً ایک آسان عمل ہے جہاں نا صرف سرمایہ کی لاگت کم ہوتی ہے بلکہ نجی سرمایہ کار بھی وہاں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
قابلِ تجدید توانائی کے وسائل طویل مدت میں سستے ضرور ہوتے ہیں لیکن ان میں ابتدائی مرحلے میں بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے باعث عالمی سرمایہ کار ترقی پذیر ممالک میں جب اپنی سرمایہ کاری پر درپیش خطرات اور اس کے ممکنہ فوائد کے درمیان موازنہ کرتے ہیں تو ہچکچاہٹ کا بھی مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔
کئی ادارے پہلے ہی اپنے کردار سے بڑھ کر کام کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ تاہم ماحول دوست توانائی میں عالمی سطح پر ہونے والی موجودہ سرمایہ کاری کا حجم اب بھی انتہائی کم ہے جس میں اضافے کے لیے عالمی سطح پر سنجیدہ کوششیں درکار ہیں۔
اس سلسلے میں توانائی کے عالمی ادارے کی جانب سے سب سے اہم تجویز یہ پیش کی گئی ہے کہ ترقی پذیر دنیا کی حکومتیں اپنے ملکوں میں ماحول دوست توانائی کو اپنانے کے لیے پبلک فنانس کے بین الاقوامی اداروں کو کلیدی کردار ادا کرنے کی جانب راغب کریں۔ ہم سب کے مستقبل اور بقاء کا دارومدار اس چیلنج سے بہتر طور پر نمٹنے میں مضمر ہے۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔