ایک ارب اور چالیس کروڑ کی آبادی پر مشتمل دنیا کے سب سے گنجان آباد عوامی جمہوریہ مُلک کو اختصار کے ساتھ چین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہونے کے اعزاز کے ساتھ چین کا شمار دنیا کی طاقتور ترین معیشتوں میں بھی کیا جاتا ہے۔
انتہائی محتاط اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال 2020ء کے اختتام تک چین کا تجارتی حجم 515 ارب ڈالر ریکارڈ کیا گیا جبکہ چین کی برآمدات ملکی جی ڈی پی کا 18 فیصد جبکہ درآمدات 16 فیصد ریکارڈ کی گئیں۔
یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہو گا کہ معیشت کی ترقی کی اس دوڑ میں چین نے دنیا بھر اپنی برتری ثابت کی ہے۔ چینی معیشت کی ترقی میں جہاں دیگر شعبوں بشمول ٹیکنالوجی، صنعتی ترقی اور ایک پائیدار تجارتی پالیسی کا کلیدی کردار ہے وہیں تعمیراتی شعبے میں بھی دنیا میں چین کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
جہاں دنیا بھر میں تعمیراتی سرگمیوں میں چین کی دیو قامت کنسٹرکشن کمپنیاں اپنی خدمات فراہم کر رہی ہیں وہیں اپنے ہی ملک چین میں کنسٹرکشن کے حوالے سے غیر یقینی حد تک مختلف تعمیراتی سرگرمیوں میں دن رات مصروفِ عمل ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ چین دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ہر سال ایک نیا شہر بسانے کے مترادف تعمیراتی سرگرمیاں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ فی الاصل چین کی بڑھتی ہوئی آبادی اور معاشی سرگرمیوں میں تیزی سے اضافے کے باعث تعمیرات کا یہ لامتناہی سلسلہ چینی کی بنیادی ضروریات میں شامل ہو چکا ہے اور یہی وجہ ہے چین پوری تن دہی سے تعمیراتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شب و روز کوشاں ہے۔
بین الاقوامی تحقیقی اداروں کا کہنا ہے کہ آئندہ دس سے پندرہ سالوں میں دنیا بھر میں تعمیر ہونے والی عمارتوں کی مجموعی تعداد میں سے نصف تعداد صرف چین میں تعمیر ہو رہی ہوں گی۔
محتاط اعداد وشمار کے مطابق چین میں ہر سال مجموعی طور پر 2 ارب مربع میٹر کی تعمیرات کے لیے جگہ تیار کی جاتی ہے۔ بڑھتی ہوئی تعمیراتی سرگرمیوں کی وجہ سے چین میں توانائی کے وسائل میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جس کی وجہ سے خطے میں ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور اس مسئلے سے بطریق احس نمٹنا چین کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چین دنیا کے ان ممالک میں سر فہرست ہے جہاں گرین گیسز کے ماحول پر اثرات کم کرنے کے لیے تعمیراتی ڈھانچوں پر زیادہ سے زیادہ سبزہ لگانے پر عملی طور پر سنجیدگی سے کام کیا جا رہا ہے۔
اکیسویں صدی کے پہلے سولہ سالوں کے دوران تعمیراتی اور صنعتی شعبے میں توانائی کے حصول کے لیے ایک ارب ٹن کوئلے کا استعمال کیا گیا۔ کنسٹرکشن کے شعبے میں خام مال کی فراہمی سے لے کر تعمیراتی سرگرمیوں میں توانائی کے حصول میں استعمال ہونے والے وسائل چین کے کُل کاربن اخراج کا پانچواں حصہ ہے جو کہ کسی بھی طرح انسانی اور دیگر جانداروں کی بقاء کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کے اثرات کم کرنے کے لیے چین میں تعمیر کی جانے والی عمارتوں کو سبزے اور ہریالی سے ڈھانپنے سے متعلق مجوزہ منصوبے کو یقینی بنانے کے امور پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ تجربہ سب سے پہلے اٹلی کے ایک شہر میں کیا گیا لیکن اب چین نے باقاعدہ طور پر اسے ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ سے متعلق حکومتی حکمت عملی کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس پر تیزی سے عمل درآمد شروع کر دیا ہے۔
چین کے شہر نانجنگ میں دو ایسی کثیرالمنزلہ عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں جنہیں مکمل طور پر ہریالی اور سبزے سے ڈھکنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں یہ منصوبہ گذشتہ سال 2020ء میں مکمل ہونا تھا تاہم کرونا وباء کے باعث تعمیراتی سرگرمیاں معطل ہونے کے باعث یہ منصوبہ ابھی التواء کا شکار ہے۔
سرسبز تعمیرات کی مربوط حکمت عملی
کسی بھی عمارت کو سرسبز بنانا بذاتِ خود ایک فَن ہے جو کہ آرٹ کی دیگر اقسام سے قدرے مشکل ہو سکتا ہے لیکن ماحولیاتی آلودگی میں بڑھتی ہوئی کاربن کی موجودگی سے نمٹنے کا واحد حل صرف نباتاتی سرگرمیوں میں ہی منحصر ہے۔
ماحولیاتی تحفظ کے ماہرین کا خیال ہے کہ تعمیراتی صنعت میں استعمال ہونے والے سیمنٹ کی صنعت دنیا بھر میں کاربن کے کُل اخراج کے آٹھویں حصے کی ذمہ دار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین دنیا بھر میں اب قدرتی وسائل کے استعمال سے ماحول دوست گھروں کی تعمیر پر زور دیتے نظر آ رہے ہیں۔
گرین آرکیٹیکچر ڈیزائن اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر لیو ہینگ کچھ اسی قسم کا کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے ایک پرانی فیکٹری کے بیکار پڑے حصے کو پرانے کانچ اور سیمنٹ کے ٹکڑوں کی مدد سے ایک نئی شکل دے کر اپنے لیے تیار کرلیا۔
چین اب ایسی عمارتوں کی تعمیر پر کام کر رہا ہے جو ہیٹر یا ایئرکنڈیشنر کے بغیر معتدل درجہ حرات یا کنٹرولڈ ٹمپریچر سے انسانی ضروریات پوری کر سکیں گی۔ چینی ماہرین کے مطابق ان عمارتوں کی راہداریوں کو اس ترتیب سے ڈیزائن کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ عمارتیں موسمِ سرما میں گرم اور گرمیوں کے موسم میں ٹھنڈک کا احساس فراہم کریں گی۔
چین میں فنِ تعمیر کے ماہرین کو اس بات کا قوی یقین ہے کہ عمارتوں کے نئے تیار کیے جانے والے ڈیزائن انتہائی پائیدار اور حوصلہ افزاء ہیں۔ گذشتہ دو سالوں میں چینی حکومت نے مجموعی طور پر 15 ہزار سے زائد گرین تعمیراتی منصوبوں کی منظوری دیں جبکہ چینی حکومت کا کہنا ہے کہ آئندہ دو سالوں میں چین کی 50 فیصد سے زائد عمارتیں سبزے اور ہریالی سے لبریز ہوں گی۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کے لیے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔