Real Estate

بین الاقوامی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز: پاکستان کی آٹھ بڑی بندرگاہیں

پاکستان میں بین الاقوامی تجارتی سرگرمیوں بالخصوص برآمدی اور درآمدی اشیاء کی ترسیل کے لیے آٹھ بڑی بندرگاہیں موجود ہیں جن میں سے کراچی بندرگاہ، محمد بن قاسم اور گوادر بندرگاہ زیادہ نمایاں ہیں۔ گوادر بندرگاہ دنیا کی سب سے گہری بندرگاہوں میں سے ایک ہے اور اپنے تزویراتی محل وقوع کی وجہ سے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اسی طرح کراچی بندرگاہ پاکستان کی مصروف ترین بندرگاہ ہے اور اسے پاکستان کا اقتصادی مرکز سمجھا جاتا ہے۔

invest with imarat

Islamabad’s emerging city centre

Learn More

آئیے! اس تحریر میں پاکستان کی چند بڑی بندرگاہوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

گہرے سمندر کی بندرگاہ کراچی پورٹ

کراچی پورٹ ایک بڑی اور گہرے سمندر کی بندرگاہ ہے جو پاکستان میں بحیرہ عرب کے ساحل کے ساتھ چلتی ہے۔ کراچی پورٹ بنیادی طور پر حکومت پاکستان کی وزارتِ سمندری امور کی ملکیت ہے اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کے زیر انتظام اپنے امور چلاتی ہے جبکہ یہ تقریباً قومی سطح پر تجارتی سرگرمیوں کے 60 فیصد حصے پر اپنا اثر رسوخ قائم کیے ہوئے ہے۔

کراچی پورٹ ایک قدرتی بندرگاہ ہے جو 18ویں صدی کے اوائل سے کام کر رہی ہے حالانکہ قدیم بندرگاہیں 8 ویں صدی عیسوی سے ہی مقامی حکمرانوں کے زیرِ تسلط رہی ہیں۔ آج یہ بندرگاہ 32 کلومیٹر طویل گھاٹیوں اور گودیوں پر قائم ہے جبکہ بحری جہازوں کے لنگر انداز ہونے کی ساحلی جگہ پر پانی کی گہرائی 16 میٹر ہے جس میں 41 برتھیں اور 8 گھاٹیاں تجارتی بحری جہازوں کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہوتی ہیں۔

تاریخ کے جھروکوں میں کراچی کا علاقہ برطانوی دور حکومت میں ایک اہم بندرگاہ کے طور پر جانا جاتا تھا اور تجارت کو بہتر بنانے کے لیے استعمال ہونے والی نئی سہولیات کا مرکز تھا۔

یہ بندرگاہ سالانہ 65.25 ملین ٹن کارگو اور 1.56 ملین ٹی ای یوز کو ہنڈل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کراچی پورٹ لنگر انداز ہونے والے بحری جہازوں کے لیے مغربی اور مشرقی گھاٹیوں میں 11 کلومیٹر کے چینل اور 2 زونز کے ساتھ تعمیر کی گئی ہے۔

کراچی پورٹ ڈاکنگ جہازوں کے لیے 75,000 ٹن کی گنجائش کے ساتھ 3 مائع کارگو بحری جہاز، برتھ، شپ یارڈ اور جہازوں کی مرمت و بحالی کی ورکشاپس، 2 ڈرائی ڈاکس اور 3 کنٹینر ٹرمینلز کی سہولیات سے ہے۔

کراچی انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل ویسٹ وارف پر 600 میٹر بریتھنگ اسپیس کے ساتھ پیانامیکس اور پوسٹ پینامیکس بحری جہازوں کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

کراچی پورٹ میں تجارتی سرگرمیوں کا عروج پڑوسی بندرگاہوں جیسے کہ پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل، گوادر پورٹ اور پورٹ قاسم کی تعمیر اور ترقی کا باعث بنا ہے۔ کورنگی فشنگ ہاربر کو کراچی فشنگ ہاربر کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔

بلوچستان میں ساحل سمندر پر قائم گوادر پورٹ

بلوچستان میں ساحل سمندر پر قائم گوادر پورٹ بحیرہ عرب کی ایک بڑی بندرگاہ ہے جو گوادر پورٹ اتھارٹی کے زیر انتظام اپنے تمام تجاتی اور انتظامی امور چلا رہی ہے جبکہ چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کے پاس بندرگاہ کا آپریشنل اور ایگزیکٹو کنٹرول ہے۔ گوادر پاکستان افغانستان تجارتی راہداری کا ایک انتہائی اہم رُوٹ ہے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کا مرکز ہے۔ ان اقدامات کے تحت بندرگاہ کو میری ٹائم سِلک روڈ اور بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹس سے منسلک گیا ہے۔

ایران میں چابہار بندرگاہ سمیت خلیج عمان اور آبنائے ہرمز کے قریب واقع گوادر ایک گہرے سمندر کی بندرگاہ ہے اور 2016ء سے کام کر رہی ہے۔ توسیعی سرگرمیوں کے تحت گوادر پورٹ میں ترقیاتی اور تعمیراتی منصوبوں کی مختلف 3 مراحل میں منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ گوادر بندرگاہ میں تیرتی ہوئی مائع قدرتی گیس کی سہولت، گوادر اسپیشل اکنامک زونز اور سی پیک کے تحت عوامی مفاد کے ترقیاتی منصوبوں کو فروغ دینے کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

مذکورہ بندرگاہ پر سال 2018ء سے اب تک کنٹینرز کی موجودہ سالانہ گنجائش 30 ملین ٹن ہے جبکہ مجوزہ کارگو کی گنجائش کا تخمینہ 2045ء تک 400 ملین ٹن لگایا گیا ہے۔ کوادر پورٹ کو سی پیک منصوبے کے تحت صنعتی زونز سے اشیاء کی بین الاقوامی ترسیل کے لیے چین اور پاکستان کے سرحدی علاقے خنجراب ریلوے سے منسلک کیا جائے گا۔

پورٹ قاسم یا محمد بن قاسم بندرگاہ

پورٹ قاسم یا محمد بن قاسم بندرگاہ پاکستان کی دوسری سب سے بڑی بندرگاہ ہے اور دنیا کی 150 بڑی بندرگاہوں میں سے ہے اور یہ ایک گہرے سمندر کی بندرگاہ ہے۔ یہ بندرگاہ میری ٹائم افیئرز کی وزارت کے زیرِ انتظام ہے۔ پورٹ قاسم 1980ء سے فعال ہے اور 50 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں کے تمام تجارتی اور انتظامی امور پورٹ قاسم اتھارٹی کے پاس ہیں۔

یہ پورٹ پاکستان کے سمندری راستے سے کل بحری تجارت کا تقریباً 35 فیصد ہینڈل کرتی ہے۔ اس کے پاس سالانہ 1,500 سے زیادہ پورٹ کالز جبکہ 16.6 ملین ٹن سالانہ کارگو ہینڈل کرنے کی صلاحیت ہے۔

پورٹ قاسم کورنگی انڈسٹریل ایریا، لانڈھی ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اور آٹوموبائل مینوفیکچرنگ کی کئی صنعتوں سے منسلک ہے۔ یہ پورٹ کراچی شہر کے قریب ہے اور دریائے سندھ پر واقع ہے جبکہ مختلف شاہراہوں، ریل اور اندرون ملک آبی گزرگاہوں سے مکمل طور پر منسلک ہے۔ نیشنل ہائی وے، جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور انڈس کنیکٹیویٹی روٹس مذکورہ بندرگاہ سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان کسٹمز، امریکی کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن فورسز کے درمیان ایک نیا مشترکہ معاہدہ انٹیگریٹڈ کارگو کنٹینڈ کنٹرول فیسیلٹی طے ہوا ہے جو پورٹ قاسم پر امریکہ جانے والے سامان کی اسکریننگ کرے گا تاکہ سمندری تجارتی سیکورٹی کو بہتر بنایا جا سکے۔

محمد علی جناح نیول بیس

جناح بہاری مستر پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا دوسرا بڑا نیول بیس ہے۔ یہاں کے تمام انتظامی امور پاکستان بحریہ کے پاس ہیں۔ جبکہ یہ بندرگاہ صوبہ بلوچستان میں مکران کوسٹل ہائی وے پر واقع کراچی پورٹ ہاربر اور گوادر پورٹ کے مغرب میں 240 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

مذکورہ بندرگاہ بحری جہازوں کی برتھ اور سروس کے لیے عالمی معیار کی سہولیات فراہم کرتی ہے۔ جنگی بحری جہازوں، آبدوزوں اور دیگر بحری اثاثوں کے لیے برتھ کے ساتھ ساتھ یہ بندرگاہ جہاز سازی اور پرانے بحری جہازوں کی بحالیِ نو کی سرگرمیوں کا بھی ایک بڑا مرکز ہے۔

کراچی نیول ڈاکیارڈ اور کراچی نیول شپ یارڈ کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے جناح نیول بیس پاکستان کی مسلح افواج کی میری ٹائم برانچ کا ایک اہم مرکز ہے۔ مذکورہ بندرگاہ کو بحریہ کے ذریعے چلنے والی ڈیزل الیکٹرک آبدوزوں کے پورے بیڑے کے لیے واحد فارورڈ بیس ہونے کا بھی منفرد اعزاز حاصل ہے۔

یہ بندرگاہ اس وقت تک 8 جنگی بحری جہازوں اور 4 آبدوزوں کو بیک وقت سروسز فراہم کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے جبکہ اورماڑہ میں ایک نیول کیڈٹ کالج بحریہ کے مستقبل کے افسران کی تربیت اور ترقی و ترریج کے لیے بھی دن رات کوشاں ہے۔

کیٹی بندر پورٹ

پاکستان کی کیٹی بندر پورٹ ملک کی قدیم ترین بندرگاہوں میں سے ایک ہے لیکن ایک چھوٹی بندرگاہ ہے جو مقامی معیشت کو سہارا دیتی ہے۔ یہ بندرگاہ دراصل ضلع ٹھٹھہ میں واقع اور بذریعہ سڑک کراچی سے 4 گھنٹے کی مسافت پر کیٹی جزیرے پر منوڑہ کے قریب دیبل کی قدیم بندرگاہ کی توسیع ہے۔

جدید دور کی کیٹی بندر پورٹ دریائے سندھ پر واقع ہے اور یہ بنیادی طور پر بحیرہ عرب اور دریائے حجام راؤ کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے ایک اہم تجارتی مرکز ہے۔

کیٹی بندر پورٹ کا بنیادی مقصد منصورہ اور ٹھٹھہ کے اضلاع کے لیے ماہی گیری کی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔

کیٹی بندر کے آس پاس کے اندرونی علاقوں میں عوام کا روزگار مکمل طور پر ماہی گیری کی سرگرمیوں پر منحصر ہے۔ یہاں پکڑی گئی مچھلیوں کے بین الاقوامی برآمد سمیت لوکل مارکیٹ میں بھی مچھلی کی ترسیل بنیادہ تجارتی سرمی تصور کی جاتی ہے۔

اورماڑہ کی بندرگاہ

اورماڑہ بندرگاہ کراچی اور گوادر بندرگاہوں کے درمیان پاکستان میں مکران کے ساحل پر واقع ہے۔ اس کی سمندری اہمیت قدیم تجارت اور سمندری لاگ بُک تک محدود ہے۔

سکندر اعظم کے زمانے سے ہی اورماڑہ ایک اہم اسٹریٹجک اور فعال مقام کے طور پر جانا جاتا ہے کیونکہ یہ سندھ کے علاقے تک رسائی اور کنٹرول فراہم کرتا ہے۔ آج یہ علاقہ حکومت پاکستان کے مکران ڈویژن کی انتظامیہ کے زیرِ انتظام ہے۔

مذکورہ بندرگاہ بنیادی طور پر ماہی گیری، تازہ سبزیوں اور پھلوں کی دیگر بڑے بندرگاہوں پر ری پیکجنگ اور اس کے بعد بیرون ملک برآمد کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ مکران کوسٹل ہائی وے پراجیکٹ پاکستان میں بحیرہ عرب کی ساحلی پٹی کے ساتھ پھیلا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ بندرگاہ قومی شاہراہ کے ساتھ منسلک ہے اور اورماڑہ کے راستے سامان اور کارگو کو گزرنے کی اجازت فراہم کرتی ہے۔

جناح نیول بیس بھی اورماڑہ میں واقع ہے اور یہ ملک کا دوسرا بڑا نیول بیس ہے۔ اسے بیلجیئم اور ترکی نے پاکستانی وزارت دفاع کے مشترکہ تعاون سے تعمیر کیا تھا اور بیس کی وجہ سے اس خطے میں اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

 

پَسنی پورٹ

بلوچستان میں واقع پسنی پورٹ ایک درمیانی درجے کی بندرگاہ ہے جو کہ مکران کے ساحل پر ماہی گیروں کے مرکز کے طور پر بھی جانی جاتی ہے۔ اس بندگاہ کے گرد و نواح کے علاقوں میں لوگوں کے روزگار کا بنیادی ذریعہ ماہی گیری ہے جو پسنی کی معیشت میں انتہائی معاون کردار ادا کرتا ہے۔

چونکہ یہاں کی زمین قابل کاشت نہیں ہے اس لیے یہ بندرگاہ دیگر پاکستانی بندرگاہوں سے مقامی لوگوں کے لیے خوراک، زرعی اجناس اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء ذخیرہ کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ یہ بندرگاہ ماہی گیری کی سرگرمی کے لیے جدید طریقے کے ساتھ برآمدی پیداوار کو پروسیس کرنے اور پیک کرنے کے لیے جدید ترین سہولیات بھی فراہم کرتی ہے۔

پسنی بندرگاہ بلوچستان اور سندھ کے علاقے میں ماہی گیری کے محکمے کے لیے تحقیق کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ علاقہ برآمدی سرگرمیوں کا ایک بڑا تجارتی مرکز ہے۔

یہاں برآمدی سامان کو عام طور پر بندرگاہ کے احاطے میں پروسیس کیا جاتا ہے اور پھر پیک کر کے کراچی پورٹ پر متعدد ماہی گیری کے بندرگاہوں کو بھیجا جاتا ہے۔ مذکورہ سہولت یورپی یونین کے ممالک کو برآمد کرنے کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

یہ بندرگاہ پاکستان کے بڑے شہروں سے سڑک اور فضائی راستے سے مکمل طور پر منسلک ہے۔ جبکہ یہ بندرگاہ پسنی میں نیول بیس پر دفاعی سرگرمیوں کا بھی اہم مرکز ہے جس کے نتیجے میں قریبی پسنی ہوائی اڈے اور قومی شاہراہوں کی ترقی ممکن ہوئی ہے۔ پَسنی سے منسلک ہوائی اڈہ مشترکہ طور پر پاکستان نیوی، ایئر فورس اور سول ایوی ایشن ٹرمینلز کے لیے ایک سہولتی مرکز بھی۔

ماہی گیری اور بندرگاہ کی سرگرمیوں سے متعلق معاملات کے لیے ریگولیٹری اتھارٹی بلوچستان سی فشریز ایکٹ 1971 کے تحت کام کرتی ہے اور اس کا مقصد سمندری آبی حیات اور مقامی لوگوں کی روزگار اور خوراک کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

جیوانی پورٹ

جیوانی پورٹ پاکستان کے مغربی حدود میں واقع ایک بحری اور تجارتی بندرگاہ ہے جو خلیج عمان کے ساتھ واقع ہے۔ یہ گوادر کے 60 کلومیٹر مشرق اور چابہار ایران کے 110 کلومیٹر مغرب میں واقع بندرگاہوں کے قریب موجود ہے۔

اس پورٹ کی وجہ سے جیوانی اور آس پاس کے اندرونی علاقوں میں ترقیاتی سرگرمیوں کو فروغ ملا ہے۔ یہ مکران ہائی وے اور جیوانی ملٹری ایئرپورٹ کے ذریعے بڑے شہروں سے منسلک ہے۔ یہ بندرگاہ تازہ سبزیوں، مچھلی اور پھلوں کی اندروں اور بیرونِ ممالک ترسیل کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

گوادر کی ساحلی پٹی کے قریب واقع یہ بندرگاہ بحری نقطہ نظر سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ آبنائے ہرمز، خلیج فارس اور خلیج عمان کے نمایاں شپنگ روٹس کے قریب ہے۔

بندرگاہ میں واقع پاک بحریہ کے اڈے میں پاک فضائیہ کے لیے ایک فضائی پٹی بھی ہے۔ اس وقت چین جیوانی میں ایک اڈہ قائم کرنے کے لیے بات چیت کر رہا ہے تاکہ بیرونی ممالک میں اڈوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنی بحری موجودگی کو پورا کیا جا سکے۔ جیوانی پاکستان میں واقع چینی بحریہ کے اڈوں میں سے دوسرا ہوگا جبکہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جیوانی اتحادی بحریہ اور فضائیہ دونوں کے لیے ایک اہم اتحادی اڈہ تھا۔

مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔

Zeeshan Javaid

Recent Posts

سی ڈی اے سیکٹرز، نجی و سرکاری ہاؤسنگ سوسائٹیز کی آن لائن پراپرٹی ویریفیکیشن ویب سائٹ لانچ کر دی گئی

اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ایک نئی ویب سائٹ…

11 مہینے ago

اسلام آباد: سری نگر ہائی وے پر پیدل چلنے والوں کیلئے پُلوں کی تنصیب

اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)کی انتظامیہ نے شہریوں کو…

11 مہینے ago

نیلامی کا آخری روز: سی ڈی اے کے 11 پلاٹس 13 ارب سے زائد میں فروخت

اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام کمرشل پلاٹس…

12 مہینے ago

نیلامی کے دوسرے روز تک سی ڈی اے کے پانچ پلاٹس 11 ارب سے زائد میں فروخت

اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو پلاٹوں کی نیلامی…

12 مہینے ago

نیلامی کے پہلے روز سی ڈی اے کے چار پلاٹ 7 ارب سے زائد میں فروخت

اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام ہونے…

12 مہینے ago

اسلام آباد: سی ڈی اے نے پراپرٹی ریکارڈ کی آٹومیشن کا فیصلہ کر لیا

اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے وفاقی دارالحکومت میں…

12 مہینے ago