طوفانی بارشیں، تیز و تند ہوائیں، زلزلے اور سیلاب جیسی قدرتی آفات مالی اور جانی نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن جدید دور میں جدید طرزِ زندگی اپنانے والے انسان نے کیا اتنی ترقی کر لی ہے کہ وہ ان آفات کا مقابلہ کرے؟ وطنِ عزیز پاکستان کے بارے میں بات ہو تو آج بھی کچھ شہروں یا دیہاتوں میں قدرتی آفات کے سبب زندگی مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے جن میں اربن فلڈنگ کا بھی شمار ہوتا ہے۔
موسمِ گرما میں برسات کا سیزن اور مون سون کی گھنٹوں جاری رہنی والی تیز بارشیں آج بھی شہروں کے نقشے بدل دیتی ہیں۔ جن میں روشنیوں کا شہر اور کاروباری حب کہلائے جانے والا صوبہ سندھ کا سب سے بڑا شہر کراچی سرفہرست ہے۔ آج شہر کے حالات کا جائزہ لیں تو سڑکیں ندیوں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ شہر کے تمام نالے اوور فلو ہو چکے ہیں۔ چورنگیوں اور چوراہوں پر گہرا پانی کھڑا ہے جن میں بائیکس اور گاڑیاں پھنس چکی ہیں۔ کرنٹ لگنے کے باعث اموات ہو رہی ہیں۔ گٹر ابل رہے ہیں جن کے ساتھ بارش کا پانی شامل ہو کر گھروں میں داخل ہو چکا ہے۔ پورا شہر ایک آفت زدہ علاقے کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اور آج حکومت کی جانب سے کراچی اور حیدرآباد جیسے بڑے شہروں میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے۔
انتہائی افسوسناک حالت یہ ہے کہ ڈی ایچ اے سے لے کر دیگر کروڑوں کی مالیت کے پوش ایریاز بھی اس کا شکار ہیں۔
معمولاتِ زندگی کی بحالی اور تکالیف سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ تعمیراتی رجحانات میں تبدیلی لائی جائے اور جدید دور کے تقاضوں پر پورا اترتے ہوئے ٹاؤنز اور سوسائیٹیز کی پلاننگ کی جائے۔
جب تک کہ ہم اس مسئلے کو کم کرنے کے لیے کچھ فعال اقدامات نہ کریں۔ موسمیاتی تبدیلی کی حقیقت کو دیکھتے ہوئے، سیلاب کی یہ آفات مزید بڑھ جائیں گی۔ درحقیقت بہت سے روک تھام کے اقدامات ہیں جو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اٹھائے جا سکتے ہیں۔
اربن فلڈنگ نکاسی کے نظام اور ندی نالوں کا ایک فطری ردِعمل ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب نکاسی آب کے راستے بھر جاتے ہیں۔ ندیاں اور نالے شدید موسمی حالات سے پیدا ہونے والے ضرورت سے زیادہ پانی کو مزید ایڈجسٹ نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد نکاسی آب کے راستے اپنے قدرتی یا مصنوعی کناروں سے اوپر ہو جاتے ہیں اور پانی آس پاس کے علاقوں میں داخل ہو کر اربن فلڈنگ اور سیلابی صورتحال کا باعث بنتا ہے۔ جبکہ وہ انسانی سرگرمیاں جو ماحول کو نقصان پہنچاتی ہیں، مثال کے طور پر سبزے کا نہ ہونا، جنگلات کی کٹائی اور کچرے کو ٹھکانے لگانے کے ناقص انتظامات خطرات کو بڑھاتے ہیں۔
موسم کی خرابی کے نتیجے میں تیز بارش
سبزے اور درختوں کی کٹائی
نکاسی آب کے راستوں اور ڈھانچے کے غیر مناسب انتظامات اور ڈیزائن
نکاسی آب کی سہولیات کی ناکافی دیکھ بھال
سیلابی پانی کے ساتھ آئے ملبے سے رکاوٹ
نشیبی علاقوں میں سوسائیٹیز کی تعمیر
غیر مناسب زرعی طریقے
منصوبہ سازی کے بغیر تعمیر شدہ علاقے
شہر کے نشیبی علاقے
نشیبی ساحلی علاقے
بیسمنٹ یا تہہ خانوں کی تعمیر کی جگہیں
نئے تعمیر شدہ نشیبی ٹاؤن اور سوسائیٹیز
بارش کے پانی اور سیلاب کی لپٹ میں آئے علاقے نہ صرف معمولاتِ زندگی پر خطرناک اثرات مرتب کرتے ہیں بلکہ جان و مال کے نقصان کا سبب بنتے ہیں جن کے تحت افراد کی ذاتی، معاشی اور سماجی سرگرمیوں میں خلل پڑتا ہے۔
اربن فلڈنگ سے سڑکوں، عمارتوں اور دیگر انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچنے کے باعث تعمیر و ترقی کے منصوبہ جات رک جاتے ہیں۔ اور لوگوں کی املاک کے نقصان کا سبب بنتے ہیں۔
کرنٹ لگنے اور ڈوب کر مرنے جیسے واقعات پیش آتے ہیں جن کے باعث عوام میں خوف اور بے یقینی کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔
معمولاتِ زندگی متاثر ہونے کے باعث خوراک اور ادویات کی فراہمی کا حصول ممکن نہیں ہو پاتا۔
پالتو جانوروں اور قیمتی اشیا، جائیداد اور پراپرٹی کے نقصان کا باعث بنتا ہے۔
تیز بارشوں کے باعث سیلابی صورتحال سے ہونے والے نقصانات کے پیشِ نظر اپنائے جانے والے اقدامات نہایت ضروری ہیں جن کے تحت آنے والے برسوں میں مفلوج نظامِ زندگی سے نہ صرف بچا جا سکتا ہے بلکہ اربن فلڈنگ کا خاتمہ تعمیری منصوبہ جات میں بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
پانی کے انتظام کو بہتر بنانے اور سیوریج سسٹم کو نقصان سے بچانے کے لیے، شہروں میں زیر زمین پائپ لائنز اور نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے جیسے اقدامات کی ضرورت ہے۔
بارش کے پانی کی سیوریج سسٹم سے علیحدگی بھاری مقدار میں بارش کے پانی کا بوجھ سہے بغیر مناسب طریقے سے کام کرنے کے قابل ہوتی ہے۔
کنکریٹ پر مشتمل تعمیرات نے دورِ حاضر میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ کنکریٹ ایسا مٹیریل نہیں ہے جو پانی اور گیسز کو جذب کر سکے۔ یہ بارش کا پانی جذب نہیں کرتا بلکہ اسے روکتا ہے اور نکاسی آب کے نظام کی طرف لے جاتا ہے جس کے تحت یہ ںظام بند ہو جاتا ہے اور پھر پانی گلیوں اور فٹ پاتھوں میں بہتا ہے جو سیلاب کا سبب بنتا ہے۔ ناقابل عبور سطحوں کو گھاس اور باغات جیسے پارگمی مواد سے تبدیل کیا جائےتو اس سے بارش کا پانی زمین میں داخل ہو جائے گا۔ یہ عمل جسے دراندازی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پودوں کی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے بھی کام کرتا ہے۔
گٹر اور نالوں کی صفائی ایک انتہائی ضروری امر ہے جن پر باقاعدگی سے کام کیے جانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا ایک شہر کے باسیوں کے لیے پینے کے پانی کی فراہمی۔
سیوریج سسٹم فضلہ، ملبہ، شاپنگ بیگز، درختوں کی جڑوں اور پتوں سے بھر سکتا ہے۔ اسی طرح پرانے، بوسیدہ، پھٹے ہوئے اور زنگ آلود پائپ اور ڈرینز کے خراب ہونے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے، جس سے مسئلہ مزید بڑھ جاتا ہے لہٰذا معیاد کے خاتمے سے قبل انہیں تبدیل کرنا نہایت ضروری ہے۔
سبز چھتیں (چھتیں جو پودوں سے ڈھکی ہوئی ہیں) اپنی فطرت کے مطابق بارش کا پانی جذب کرتی ہیں اور بارش کے باعث اربن فلڈنگ کو کم کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ یورپ میں یہ طریقے بہت مقبول ہو چکے ہیں۔ یہ کمیونٹییز میں پانی کے بہاؤ کو کم کرنے کا سبب بنتا ہے اور گٹر میں جا کے مشترکہ بہاؤ کو روکتا ہے۔
گلوبل وارمنگ کے تحت موسمی تبدیلیوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سپنج سٹی کا تصور ابھرا۔
ایک سپنج سٹی وہ ہے جو قدرتی طریقے سے پانی کو جذب کر سکتا ہے۔ روک سکتا ہے، صاف کر سکتا ہے اور بہا سکتا ہے۔ لہذا، بارش کے پانی کو دور کرنے کے بجائے، ایک سپنج سٹی اسے اپنی حدود میں اپنے استعمال کے لیے برقرار رکھتا ہے۔ یہ تصور چین میں بہت مقبول ہوا ہے۔ جہاں گذشتہ برسوں میں شہری سیلاب کی شرح دوگنی سے زیادہ دیکھی گئی۔
اس میں باغات اور شہری کھیتوں کو سیراب کرنا، ختم شدہ ایکویفائرز (پانی صاف کرنےکے طریقے)کو دوبارہ چارج کرنا، بیت الخلاء کو فلش کرنے کے لیے استعمال ہونے والے پانی کو تبدیل کرنا شامل ہے۔
بارش کے پانی کو سٹور کیے جانے کے یوں تو مختلف طریقے ہیں
سمندر کے شہر کراچی میں بیشتر علاقے پانی کی کمی کا شکار ہیں۔ جہاں پینے سے لے کر دیگر گھریلو استعمال کے لیے پانی کی ضرورت درپیش رہتی ہے۔ جبکہ برسات کے موسم میں اربن فلڈنگ کے باعث پانی زیرِ زمین ٹینکوں میں سٹور کیا جا سکتا ہے۔ جس سے متعدد کام سر انجام دیے جا سکتے ہیں۔
برسات کے موسم میں پانی کے اخراج کے بہترین انتظام کے باوجود شہر اربن فلڈنگ کا شکار ہو سکتا ہے۔ اضافی احتیاط کے طور پر کراچی جیسے شہر میں اپنے گھروں کی دوبارہ تعمیر ضروری ہے۔ تاکہ کم سے کم نقصان کا سامنا ہو۔ ان ضروری اقدامات کے لیے ایک فعال منصوبہ بنائیں۔ اور بجلی کے سوئچ اور ساکٹ کو دیوار پر اونچی سطح پر لگائیں۔ اپنے گھروں اور عمارتوں کو واٹر پروف بنائیں۔
اس کے علاوہ گھر کی تعمیر زمین سے چند میٹر کے فاصلے پر شروع کریں۔ تاکہ نشیبی علاقے میں ہوتے ہوئے بھی آپ کم سے کم نقصان سے دو چار ہوں۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ایک نئی ویب سائٹ…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)کی انتظامیہ نے شہریوں کو…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارےکیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام کمرشل پلاٹس…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو پلاٹوں کی نیلامی…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے زیر اہتمام ہونے…
اسلام آباد: وفاقی ترقیاتی ادارے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے وفاقی دارالحکومت میں…