اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کو اللہ نے ایسا حُسن عطا کر رکھا ہے کہ جس کی باقی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اسی لیے یہاں جو ایک بار آجائے، وہ پھر دنیا کے کسی بھی کونے اور کسی بھی خطے میں چلا جائے، اُس کے ذہن سے پاکستان کی خوبصورتی اور یہاں کی مٹی میں گوندا اپناپن نہیں بھولتا۔ تپتے صحراؤں، سرسبز وادیوں، گہرے سمندروں، برفیلے چٹانوں اور وسیع بیابانوں کی اس زمین یعنی ہمارے پیارے مُلک پاکستان میں سے اگر کہا جائے کہ قارئین کے لیے سیاحت کی غرض سے چند مقامات کو چن کر اُن کے بارے میں لکھا جائے تو یقیناً یہ ایک مشکل کام ہے مگر قارئین کی آسانی کے لیے کاوش درج ذیل ہے۔
وادئ نلتر
میرا پہلا انتخاب وادئ نلتر ہے جو کہ گلگت سے تقریباً ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ یہ جگہ اپنی وسیع جھیلوں کی وجہ سے مشہور ہے لیکن کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یہاں دنیا کا بہترین آلو بھی کاشت ہوتا ہے۔
اس وادی کو قدرت نے چیڑ کے گھنے جنگلات سے مزین کر رکھا ہے اور یہاں کے ماحول میں لی گئی ہر سانس انسان کو اِس مُلک پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کا احساس دلاتی ہے۔ یہاں کی داستان گو جھیلیں اور اُن میں نظر آتا ہوا پہاڑوں کا عکس کسی بھی شخص کی زبان گنگ کرنے کو کافی ہے۔
دیوسائی
اگلا ذکر دیوسائی کا ہے۔ دیوسائی دو لفظوں کا مجموعہ ہے یعنی دیو اور سائی اور اس کا مطلب دیو کا سایہ ہے۔
خوبصورتی کا یہ شاہکار ہمالیہ کے دامن میں واقع ہے جو دنیا کا وہ واحد پہاڑی علاقہ ہے جو ہر مقام پر چار ہزار میٹر سے زیادہ اونچا ہے۔ یہ جگہ سال کے آٹھ ماہ برف سے ڈھکی رہتی ہے اور چار ماہ یہاں میدانوں پر سبزہ کھلا رہتا ہے۔ یہاں دنیا کی بلند ترین جھیل یعنی 4142 فٹ کی بلندی پر شیوسر بھی واقع ہے۔ یہاں کے باسی کہتے ہیں کہ یہاں کا موسم ایک سا نہ رہنے کے لیے مشہور ہے یعنی پل میں یہاں بارش برسنے لگتی ہے، اگلے ہی پل ژالہ باری ہونے لگتی ہے اور چند لمحات میں دھوپ چھاؤں کا کھیل شروع ہوجاتا ہے۔
عطا آباد جھیل
دیکھنے والے کہتے ہیں کہ اگر عطا آباد جھیل نہیں دیکھی تو زندگی میں کچھ نہیں دیکھا۔ یہ دنیا کے میٹھے پانی کے بڑے ذخیروں میں سے ایک ہے۔
اس کی گہرائی 220 فٹ ہے اور طوالت 22 کیلومیٹر ہے۔ یہ پانی اپنا وُجود قراقرم کی پگھلتی برف سے لیتا ہے جو پہاڑی کی ڈھلوان پر اترتا اترتا ایک تنگ سے پہاڑی درے پر آ کر رک جاتا ہے۔ اس کا وُجود سن 2010 میں آیا تھا جب عطا آباد گاؤں سے گزرتا دریائے ہنزہ میں ایک مٹی کا تودہ گرا اور وہاں پانی کا بہاؤ رک گیا۔ تب سے قدرتی حُسن کا یہ شاہکار دیکھنے والوں کو دنگ کررہا ہے اور اُنھیں بار بار آنے پر مجبور بھی۔
گانچھے
اور اب ذکر ہوجائے گانچھے کا کہ جسے پاکستان کے ماتھے کا جھومر کہتے ہیں۔ یہاں کا نام سنتے ہی ذہن سنگلاخ نوکیلے پہاڑوں، بلندی سے گرنے والی آبشاروں اور فطرت کی آغوش میں پلتے موسموں کو سوچنے لگتا ہے۔
یہ بستی دریائے شیوک کے کنارے آباد ہے اور یہ زمین قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ اس کا ایک مقام خپلو ہے جہاں جا کر یوں گمان ہوتا ہے کہ یہ علاقہ کسی مصوّر کے تمام عُمر کی محنت کا ثمر ہے یعنی ایک ایسا شاہکار ہے کہ جس میں اُس نے محض کینوس پر مختلف رنگوں کو بکھیر کر ایک جادو کیا ہے۔
بہاولپور
دریائے ستلج کے کنارے پشاور کراچی کی ریلوے لائن پر واقع یہ تاریخی شہر یادگار عمارات، باغات اور ماضی کے جھروکوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوے ہے۔ تاریخ کے طالب علموں کے لیے یہ شہر کسی انسائکلوپیڈیا سے کم نہیں۔
یہ شہر انسان کو بتاتا ہے کہ اُس کی آرٹ سے دلچسپی آج سے نہیں بلکہ کئی صدیوں سے ہے۔ انسان چاہے جتنا بھی پرانا ہو، مصوری، تعمیرات اور موسیقی ہمیشہ سے ہی اُس کا دل لبھاتی رہی ہے۔ یہاں نہ صرف آپ کو محلات کی شان و شوکت مرعوب کرتی ہے بلکہ صحرائی علاقے کے ساتھ سرسبز باغات نظروں کی تسکین کا باعث بنتے ہیں۔
رنی کوٹ
یہ 26 کیلومیٹر کے رقبے پر محیط دنیا کا سب سے بڑا قلعہ ہے۔ یہاں کراچی سے بذریعہ قومی شاہراہ یعنی انڈس ہائی وے سے دادو کی جانب سفر کر کے آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے۔
چونکہ اس قلعے کی ملکیت کے بارے میں آج تک کوئی مستند تحقیق سامنے نہیں آ سکی تو اس کو آج تک وہ مقام نہ مل سکا جو کسی ایسی تاریخی جگہ کو ملنا چاہئے۔ آج تک معلوم نہ ہوسکا کہ یہ تعمیر کس نے کی تھی، یہ قلعہ کس دشمن سے بچنے کے لیے کیونکر تعمیر ہوا تھا اور یہی پُراسراریت اس جگہ کو مزید دلچسپ بناتی ہے۔ سن نامی گاؤں پر لگے ایک زنگ آلود بورڈ، جو کہ بتاتا ہے کہ رنی کوٹ تقریباً 30 کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے، سے ہی اس پُراسراریت کا آغاز ہوجاتا ہے۔
سپین خوڑ جھیل
یہ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب صاف اور شفاف ندی ہے۔ سپین خوڑ کے شمال کی جانب کنڈول جھیل ہے اور اِس کے مشرق کی طرف وادئ اُتروڑ واقع ہے۔
یہ جھیل تین اطراف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔ اس جھیل تک پہنچنے کے دو راستے ہیں یعنی یہاں تک دو روٹس سے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایک وادئ لدو سے ہو کر جاتا ہے جو کنڈول جھیل سے ہوتے ہوئے سپین خوڑ جھیل سے جا کر ملتا ہے اور دوسرا راستہ وادئ لدو سے ایک جنگل کی طرف کو نکلتا ہے۔ یہاں جو لوگ نئے ہیں اکثر اُن کو پُر خطر راستوں پر گاڑی چلانے میں دشواری کا سامنا کرنا ہوتا ہے اور عموماً وہ سمت بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ یہاں انسان حسن اور قدرت کا ایک ایسا امتزاج پاتا ہے جو امتزاج اپنے آپ میں ہی ہمہ وقت اپنے مکمل جوبن پر ہوتا ہے۔ یہاں کے گھنے جنگلات، اُن میں پرندوں کی محصور کن آوازیں اور برف سے اٹی پہاڑیاں انسان کو وہیں کا ہو کر رہنے کے لیے مجبور کرتی ہیں۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کے لئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔