سیاحت کے فروغ کے عالمی ادارے ورلڈ ٹریول اینڈ ٹوراِزم کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستانی معیشت میں سیاحت کے شعبے سے حاصل ہونے والی آمدن کا حجم 7.6 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے جبکہ 2025ء تک مذکورہ شعبے سے حاصل ہونے والی آمدن کا تخمینہ 12.8 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔
دوسری جانب موجودہ وفاقی حکومت نے بھی ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے ایسے ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں جن کی وجہ سے ملک بھر میں بالخصوص شمالی علاقہ جات اور خیبرپختونخوا کے سیاحتی مقامات کی جانب شہریوں اور بین الاقوامی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد نے رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔
آج کی اس تحریر کی مدد سے ہم اپنے قارئین کو خیبرپختونخواہ کے ضلع سوات میں موجود ایسے سیاحتی مقامات کی سیر کرائیں گے جو برف پوش پہاڑوں، سرسبز و شاداب میدانوں اور دلکش قدرتی نظاروں کی وجہ سے مغربی ملک سوئٹزرلینڈ کے علاقوں سے تعبیر کیے جاتے ہیں۔
سوات کے سفر کے لیے دستیاب ذرائع
اگر آپ برفانی پہاڑوں، بہتے جھرنوں اور سرسبز و شاداب میدانوں کے سنگم پر واقع سیاحتی مقامات کی سیر کرنا چاہتے ہیں تو یقین جانیے کہ اس حوالے سے ضلع سوات سے بہتر انتخاب اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ ضلع سوات سے ملحقہ سیاحتی علاقوں کے سفر کے لیے آپ بذریعہ ہوائی جہاز، ریل اور بس تینوں سروسز کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔
عام طور پر ہوائی سفر کراچی سے آنے والے شہریوں اور سیاحوں کے لیے زیادہ موضوع ہے کیونکہ بذریعہ ہوائی جہاز آپ کراچی سے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے پشاور کے باچا خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ تک صرف اڑھائی گھنٹے کی آرام دہ فلائٹ سے پہنچ سکتے ہیں۔ جبکہ کراچی سے پشاور بذریعہ سڑک اور ریل کے آپ کو تھکا دینے والے کم از کم 29 سے 31 گھنٹے اور پھر پشاور سے سوات کے سیاحتی مقامات کے لیے کم زا کم 3 سے 4 گھنٹے کی مزید مسافت درکار ہے۔
لہذا کراچی اور کوئٹہ سے آنے والے سیاحوں کے لیے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات کا سفر بذریعہ ہوائی جہاز ایک بہترین انتخاب ہو سکتا ہے۔ جبکہ صوبہ پنجاب سے آنے والے سیاح بذریعہ سڑک بس کے استعمال سے براہِ راست 7 سے 8 گھنٹوں کی مسافت کے بعد سوات شہر تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔
سوات کے سفر کے دوران موٹروے پر بین الاقوامی معیار کی مسافتی سرنگیں
پنجاب سے بذریعہ سڑک آنے والے شہریوں اور سیاحوں کو راولپنڈی سے براستہ اسلام آباد سے سوات کے لیے موٹروے ایم فائیو پر سفر کرنا ہوتا ہے۔ مذکورہ موٹروے پر بین الاقوامی معیار کی سرنگوں کے بننے سے قبل مالاکنڈ سے مینگورہ پہنچنے میں چار گھنٹے لگتے تھے اور مسافر غیر ہموار سڑکوں پر سفر کے باعث خوفزدہ بھی رہتے تھے۔
ایک ہی مرکزی شاہراہ پر دو طرفہ ٹریفک کا بہاؤ ایک پُرخطر سفر کے طور پر جانا جاتا تھا۔ مگر اب چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں کے تحت سرنگیں تعمیر کر دی گئی ہیں جس کی وجہ سے مسافت کے کُل دورانیہ میں ڈیڑھ گھنٹے کی کمی واقع ہو چکی ہے۔
مذکورہ سرنگوں کی جانب جانے والے راستوں میں حائل پہاڑوں کو کاٹ کر یہ راستہ بنایا گیا ہے جو کسی شاہکار سے کم نہیں ہے۔ سوات کے راستے میں موٹر وے پر تعمیر شدہ ان سرنگوں سے نکلنے کے بعد چند ہی کلومیٹر کی مسافت طے کر کے آپ مینگورہ پہنچ جاتے ہیں۔
سوات کی مرکزی تحصیل مینگورہ سے سیاحتی مقامات کا سفر ایک سحر انگیز تجربہ
تحصیل مینگورہ ضلع سوات کے سیاحتی مقامت کی سیر کے لیے مرکزی اسٹیشن کی حیثیت رکھتا ہے جہاں سے آگے آپ سیاحتی مقاامات کے لیے باقاعدہ سفر کا آغاز کر سکتے ہیں۔ تحصیل مینگورہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مذکورہ علاقے سے آپ سیاحتی مقامات بحرین، کالام، ہوشوبرم، گلیشیئرز جبکہ مالم جبّہ، گبین جبّہ، گرین چوک اور فضا گٹ جیسے پُرفضا اور دلکش نظاروں سے بھرپور قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے سفر اختیار کر سکتے ہیں۔
ہم یہاں ایک تجویز اپنے قارئین کے سامنے رکھنا چاہیں گے کہ مینگورہ میں رُک کر سفری تھکاوٹ دور کرنے کے لیے کسی ہوٹل میں ایک دن کے لیے لازمی قیام کریں تاکہ وہاں مینگورہ میں پٹھانوں کے راوایتی کھانوں اور ثقافت کا ناصرف قریبی مشاہدہ کر سکیں بلکہ رات آرام کرنے کے بعد اگلی صبح تازہ دم ہو کر اپنی منزل کی جانب راوانہ ہو سکیں۔
ضلع سوات میں سیّاحوں کے لیے حسین وادیاں مرغزار، جمبل، مالم جبہ، مدین، میاندم، بحرین، کالام، مانکیال، مٹلتان، شرنگرو آبشار، لیکو گبرال، گوالرئی، اوشو، اترو، مہوڈھنڈ، پری جھیل، کنڈول جھیل، بشیگرام جھیل، اسپین خواڑ جھیل، درال جھیل، سیداگئی ڈنڈجھیل، ازمیز ڈنڈ جھیل، نیل سر جھیل، گودر جھیل، چیل ،یخ تنگی، گبین جبّہ، جاروگو آبشار، سلاتنڑ اور فضا گٹ جیسے حسین مقامات موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سوات میں 100 سے زائد جھیلیں ہیں اور ضلع سوات کا شمار دنیا کے حسین ترین سیّاحتی مقامات میں ہوتا ہے۔
وادیِ کوہستان کا سفر براستہ کالام
بحرین پہنچ کر اگر آپ کا رُخ کالام کی طرف ہو تو دائیں ہاتھ کی جانب سے دریا کا شور سنائی دے گا جہاں ایک گلی میں جب آپ داخل ہوں گے تو پانی کے اوپر مقامی انجینئرز کا تیار کردہ لوہے کا مضبوط پُل نظر آئے گا یہ اس قدر مضبوط ہے جہاں سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں گاڑیوں کی آمد و رفت بھی ہوتی ہے۔
بحرین سے کالام جاتے ہوئے دائیں ہاتھ پر پہلے کیدام کا علاقہ آئے گا جہاں پہاڑ چڑھنے کے بعد اوپر ایک خوبصورت علاقہ گورنائی کے نام سے موجود ہے۔ منکیال کے علاقہ کے بعد آپ جابہ پہنچیں گے یہاں سرسبز میدان اور سفید رنگ کا خان آف سوات کا محل بھی ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جسے سوئٹزرلینڈ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہاں عام گاڑی پر سفر کرنا انتہائی مشکل ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں آپ کو کرایہ پر جیب کی سہولت با آسانی مل جاتی ہے۔ راستے میں آپ کو سڑک کنارے پانی کے جھرنے بہتے نظر آئیں گے۔
ماہوڈنڈ، کٹورہ جھیلیں اور راستے کے دلفریب مَسحور کُن مناظر
کالام پہنچنے سے قبل آپ کو ہوٹل، دکانیں اور گھما گہمی نظر آئے گی اور اُس سے قبل ایک چیک پوسٹ بھی ہے۔ یہاں پہنچ کر آپ اگر اگلے سفر سے محظوظ ہونا چاہتے ہیں تو یہاں ایک دن قیام کریں اور اگلی صبح اوشو جنگل، آبشار، مہوڈنڈ اور سیف الملوک جھیل کی طرف روانہ ہوسکتے ہیں۔
اوشو سے پہلے بائیں جانب ایک کھلا سرسبز میدان ہے جسے مقامی لوگ بند کلی کے نام سے متعارف کرواتے ہیں۔ یہاں عام طور پر شام کے وقت بچے اور نوجوان کرکٹ کھیلتے نظر آتے ہیں۔ اس میدان سے تھوڑا سا آگے دائیں جانب ایک راستہ وادیِ کمراٹ کی طرف جارہا ہے جہاں پر جانے کے لیے آپ کو نجی گاڑی ہی کرایہ پر حاصل کرنا ہوگی۔ وادی کمراٹ کی کٹورہ جھیل اور مشہور آبشار کو دیکھ کر شہری اور سیاح قدرتی نظاروں سے خوب لُطف اندوز ہوتے ہیں۔
وادیِ سوات کے تمام علاقوں کے لوگ انتہائی مہمان نواز ہیں جہاں وہ نہ صرف آپ کا گرم جوشی سے استقبال کریں گے بلکہ اگر کوئی مشکل پیش آ جائے تو آگے بڑھ کر بغیر کسی غرض و لالچ کے آپ کی مدد بھی کرتے ہیں۔
مذکورہ علاقے بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے یہاں ہر سال خوب برفباری ہوتی ہے۔ اگر آپ جون میں ان علاقوں کی سیر کے لیے جائیں تو برفباری شاید نہ مل سکے مگر پہاڑوں کی چوٹیوں پر کہیں نہ کہیں برف پڑی ضرور نظر آ جاتی ہے۔ اگر آپ ربِ کائنات کی قدرت سے محظوظ ہونا چاہتے ہیں تو جولائی اور اگست کے مہینے ان علاقوں کی سیر کے لیے انتہائی موضوع ہیں کیونکہ یہاں اُس وقت آپ کو پہاڑوں پر ہریالی، دریا کے پانی کا تیز بھاؤ جبکہ سفری راستے بھی کھلے ملیں گے۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔