مختلف ادوار میں خوبصورت سے خوبصورت مساجد تعمیر کروانے کا رواج رہا ہے۔ مغلیہ فنِ تعمیر جہاں دوسری تعمیرات میں اپنا ایک انفرادی مقام رکھتا ہے وہیں مساجد کی تعمیر میں بھی مغلوں کے فنِ تعمیر کا کوئی ثانی نہیں۔
بادشاہی مسجد لاہور بھی اسی فنِ تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ یہ مسجد مغل بادشاہ اورنگزیب نے تعمیر کروائی تھی۔ سرخ پتھروں سے بنائی گئی یہ خوبصورت مسجد دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتی ہے۔
آج کے بلاگ میں ہم قارئین کو اس مسجد کے بارے میں دلچسپ معلومات سے آگاہ کریں گے۔
تعمیراتی تاریخ: مغلیہ دور کا ایک شاہکار
بادشاہی مسجد کی تعمیر 17ویں صدی میں 1671ء سے 1673ء کے دوران کی گئی تھی۔ مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے اپنے بھائی مظفر حسین عرف فدائے خان کوکا کو اس کی تعمیر کی نگہداشت کی ذمہ داری سونپی جو اس وقت لاہور کے گورنر بھی تھے۔ 1840ء میں ایک زلزلہ آیا جس کی وجہ سے مسجد کے میناروں کی بلندی پر واقع برج بُری طرح متاثر ہوئے۔ اس واقعے کو کافی برس بیت گئے۔ 1852ء میں اس کی بحالی کا کام شروع کیا گیا لیکن مکمل بحالی پھر بھی نہ ہو سکی۔ صحیح معنوں میں اس کی بحالی اور متاثرہ حصوں کی دوبارہ تعمیر 20ویں صدی میں شروع کی گئی جس پر پچاس لاکھ روپے سکہ رائج الوقت لاگت آئی۔ آرکیٹیکٹ نواب زین یار جنگ بہادر نے اس کی بحالی کے تعمیراتی کام کا نقشہ تیار کیا۔ تعمیراتی کام کے مکمل ہونے کے بعد اس کو اصل شکل میں واپس لایا گیا۔
مغلیہ دور کا اثاثہ
یہ اس دور کی سب سے بڑی مسجد اور پاکستان کی تیسری بڑی مسجد ہے۔ برطانوی دورِ حکومت میں اس پر قبضہ کر لیا گیا اور یہ فوجی چھاؤنی کے طور پر استعمال ہونے لگی۔ آج یہ پاکستان کے پُرکشش مقامات میں سے ایک ہے۔ اس کا فنِ تعمیر بھارتی، وسطی ایشیاء، پارسی اور اسلامی فنِ تعمیر کا مرکب ہے۔ بادشاہی مسجد ایک پُر سکون اور روحانیت سے بھرپور ماحول فراہم کرتی ہے۔ وہاں بیٹھ کر آپ خود کو مغل دور کی ہی کسی صدی کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔ وقت رک سا جاتا ہے اور زمان و مکاں کے علم سے دور آپ خود کو ایک الگ ہی دنیا کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔
نئے جوڑوں کی اکثر خواہش ہوتی ہے کہ ان کا نکاح اس خوبصورت تاریخی مسجد میں میں منعقد ہو۔ اس مقصد کے تحت اکثر و بیشتر نکاح کی تقریبات اس پرُسرور مسجد میں منعقد کی جاتی ہیں۔ یہ مسجد 1986 تک دنیا کی سب سے بڑی مسجد سمجھی جاتی تھی۔ دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہونے کا اعزاز قریب 300 سال تک اس کے پاس رہا۔ اسی طرح 22 فروری 1974 کو لاہور میں منعقد ہونے اسلامی سمِٹ کے موقع پر 39 ممالک کے سربراہان نے بادشاہی مسجد میں مولانا عبدالقادر آزاد کی امامت میں نمازِ جمعہ ادا کی۔ اس بات سے اس کی تاریخی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
حال ہی میں بادشاہی مسجد میں ایک میوزیم تعمیر کیا گیا جس میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا سے تعلق رکھنے والی مبارک نوادرات سجائی گئی ہیں جو کہ اس کی اہمیت میں مزید اضافے کا باعث ہے۔
فنِ تعمیر جو ہے اپنی مثال آپ
فنِ تعمیر کے لحاظ سے بادشاہی مسجد مغل دور کے فنِ تعمیر کی ثقافت کی بھرپور عکاس ہے۔ مسجد کے تین گنبد، چار بڑے مینار اور چار چھوٹے مینار ہیں۔ ہر بڑے مینار کی لمبائی 30 فٹ اور ہر چھوٹے مینار کی لمبائی 20 فٹ ہے۔ اس شاہکار کو لاہور کے تاج محل کے نام سے بھی پُکارا جاتا ہے۔ اس کا فنِ تعمیر جامع مسجد دلّی سے بہت مماثلت رکھتا ہے جو مغل بادشاہ اورنگزیب کے والد شاہجہاں نے 1648ء میں تعمیر کروائی تھی۔
بادشاہی مسجد کی وُسعت
بادشاہی مسجد کی وُسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں 56000 لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد میں نماز پڑھنے کی جگہ 22604 اسکوئیر فُٹ سے زیادہ ہے اور اس کا احاطہ 279861 اسکوئیر فُٹ کے رقبے پر مشتمل ہے۔ اگر احاطے کو بھی شامل کر لیا جائے تو مسجد میں بیک وقت ایک لاکھ لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس کی دیواریں چھوٹی اینٹوں سے بنائی گئی ہیں۔ اس کا مرکزی ہال رنگوں اور نقوش و نگار سے مُزیّن سنگِ مرمر پر مشتمل ہے۔
حفاظتی نکتہ نظر سے اس کی دیوار 19.68 فُٹ لمبی تعمیر کی گئی تھی تاکہ قریب واقع درائے راوی کی وجہ سے سیلاب کے باعث زیرِ آب نہ آ سکے۔
حرفِ آخر
بادشاہی مسجد پاکستان کا ثقافتی، سفارتی اور سیاحتی اثاثہ ہے۔ اس کی تاریخ اور منفرد فنِ تعمیر کی بنا پر پاکستان کو یہ بین الاقوامی طور پر ایک منفرد مقام دلاتی ہے۔ جس طرح ہندوستان تاج محل پر فخر کرتا ہے، پاکستان بادشاہی مسجد پر کرتا ہے۔ دنیا بھر سے مغل ثقافت پر ریسرچ کرنے والے سیاح اور دیگر سیاح جو حسِ لطافت رکھتے ہیں، ان کا شوق ان کو اس پُرکشش مقام کی طرف کھینچ لاتا ہے۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کیلئے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔