عالمی نقشے پر قطب شمالی سے لے کر قطب جنوبی تک 249 کے قریب ممالک آباد ہیں جہاں مختلف رنگ و نسل، مذہب، رسم و راواج سے جڑے افراد اپنی زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ دنیا میں آج بھی کئی ایسے مقامات ہیں جو کہ نہ یہ صرف وہاں بسنے والے انسانوں کی راوایات بلکہ قدرت کی ناقابل یقین تعمیراتی منصوبہ بندی کی عکاسی کرتے ہوئے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کیے ہوئے ہیں۔
وسطی ایشیائی ریاستوں سے لے کر یورپ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے لے کر اسٹریلیا، جنوبی ایشیا سے آگے مشرق وسطیٰ اور اس سے بھی آگے سرد ترین آخری برِاعظم انٹارٹِکا میں کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جو کہ جدید ترین طرزِ تعمیر کے علاوہ ایسے سیاحتی مقامات کی وجہ سے بھی دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں جو کہ غیر آباد ہونے کے ساتھ ساتھ دشوارترین گزرگاہوں پر مشتمل ہیں۔
ان سیاحتی مقامات تک پہنچنے کے لیے بسا اوقات آپ کو میلوں ہموار اور غیر ہموار طویل فاصلے پیدل طے کرنے پڑ سکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان سیاحتی مقامات پر تعمیراتی عدم ترقی کے باعث آپ کو رات کھلے آسمان تلے ویران میدانوں میں گزارنی پڑ سکتی ہے لیکن زندگی کے یہ تلخ تجربات آپ کبھی بھول نہیں پائیں گے۔
دنیا بھر سے ایسے ہی 10 سیاحتی مقامات کا ہم نے آپ کے لیے انتخاب کیا ہے جو غیرآباد کاری، ویرانی اور دشوار گزار راہداریوں کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ہاں! لیکن یہ ضرور ہے کہ ان سیاحتی مقامات کی سیر کا تجربہ آپ کو ایک لمبے عرصے تک اپنے سحر میں مبتلا رکھ سکتا ہے۔
آئیے! ان سیاحتی مقامات سے متعلق چند اہم اور مفید معلومات کا ہم آپ سے تبادلہ کرتے ہیں۔
دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے – ٹو کا بیس کیمپ
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی جدید ترین طرز تعمیر کی وجہ سے اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی شمالی علاقہ جات کے دلفریب قدرتی نظاروں، برف کی سفید چادر اوڑھے بلند و بالا پہاڑ اور سرسبز و شاداب میدانوں کی وجہ سے پاکستان سیاحتی وساءل کے حوالے سے کسی بھی دوسرے ملک سے کم نہیں ہے۔ دنیا کی دوسری بلند ترین اور دشوار گزار راستوں کی وجہ سے خطرناک چوٹی کے – ٹو ہے جو کہ پاکستان کے شمالی علاقہ گلگت بلتستان میں واقع ہے۔ اس برفانی چوٹی کا بیس کیمپ کونکورڈیا کے نام سے جانا جاتا ہے جہاں پہنچنے کے لیے آپ کو گلگت بلتستان میں 10 دن چلتے ہوئے بالتورو، گڈون آسٹن اور وینیہ نامی گلیشیئرز عبور کرنا ہوتے ہیں اور آپ دنیا کے دوسرے سب سے بڑے پہاڑ کے ٹو کے دامن میں پہنچ جاتے ہیں۔ کوہ پیمائی بلاشبہ ایک انتہائی مہنگا مشغلہ ہے اور چوٹی سر کرنے کے لیے پیشہ وارانہ کوہ پیماؤں کو باقاعدہ طور پر تمام دستیاب وسائل تک رساءی حاصل ہوتی ہے لیکن عام مقامی یا بین الاقوامی سیاح کے لیے اس چوٹی کے بیس کیمپ تک پہنچنے کا اور کوئی آسان راستہ نہیں ہے۔ یہ دنیا کے چند ان مقامات میں شامل ہے جہاں پہنچنے تک عام آدمی پہاڑوں کے بیچ و بیچ ہی دفن ہو سکتا ہے۔
ربع الخالی (ایپمٹی کوارٹر)
ربع الخالی بنیادی طور پر عرب لفظ ہے جس کے معنی ہیں خاموش گھر۔ ربع الخالی سعودی عرب میں جزیرہ نما ایسا ریتلا علاقہ ہے جس کا کُل رقبہ یورپ کے ممالک بیلجیءم، فرانس اور ہالینڈ کے مجموعی رقبے سے بھی زیادہ ہے۔ بلاشبہ یہاں جدید طرز کی تعمیر کے آثار تو نہیں ملیں گے لیکن یہاں یہاں ریت کے ٹیلے ایفل ٹاور سے بھی بلند ہیں جن کی اونچائی 300 میٹر سے زیادہ ہے اور یہ سینکڑوں کلو میٹر تک پھیلے ہوئے ہیں۔
کیپ یارک ایک ایسا علاقہ جو آپ کے جبڑے ہلا کر رکھ دے
آبادکاری کے اعتبار سے اسٹریلیا کرہ ارض کے دیگر براعظموں میں واقع ممالک سے بالکل مختلف ہے۔ اسٹریلیا کا ایک بڑا زمینی حصہ آج بھی ویران و بیابان ہے جہاں آپ کو زندگی کی بنیادی ضروریات جیسے پانی اور سبزہ جیسی نعمتوں کے آپ کو دور دور تک آثار نہیں ملیں گے۔ اسٹریلیا کے دیگر شہروں کے لیے بھی کیپ یارک ایک دور دراز اور پہنچ سے باہر علاقہ ہے۔ ملک کے انتہائی شمال میں جانے کے لیے آپ کو فور ویل ڈرائیو والی جیپ میں سفر کرنا ہو گا جس کا سفر شاید آپ کے جبڑے ہلا دے۔ یہ کیپ کیرنز سے تقریباً 1000 کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ اس کا مطلب ہے یہاں جانے کے لیے کئی دنوں تک گاڑی میں سفر کرنا ہو گا اور مگرمچھوں سے بھری جھیلیں عبور کرنا ہوں گی۔
نیشنل پارک، کینیڈا
کینیڈا کے دوسرے سب سے بڑے نیشنل پارک میں شاید سب سے کم لوگ جاتے ہوں گے۔ 80 ڈگری شمال میں الزمیر جزیرے پر یہ شمالی امریکہ کا انتہائی شمال کا مقام ہے جسے کیپ کولمبیا بھی کہتے ہیں۔ قریب کے ایک گاؤں سے یہاں چارٹر طیارے پر آنے کے لیے آپ کو 32 ہزار کینیڈین ڈالر خرچ کرنا ہوں گے۔ اس پارک میں سڑکوں یا درختوں جیسی کوئی سہولت نہیں۔ لیکن یہاں قطبی ریچھ اور خوبصورت پہاڑ ہیں۔ کینیڈا کا سب سے شمالی گاؤں بھی یہیں پر ہے جس کا نام گرز فیئورڈ ہے۔ آپ وہاں بھی جا سکتے ہیں۔
قطب شمالی
دنیا کا انتہائی شمالی مقام قطب شمالی ہے۔ اسے بعض لوگ سینٹا کلاز کا گھر بھی کہتے ہیں۔ ظاہر ہے کوئی اس داستان کو غلط ثابت کرنے کے لیے اتنی دور کیوں جائے گا۔ جنوبی قطب کے مقابلے قطب شمالی میں کوئی زمین نہیں۔ یہاں آنے والے سیاح پانی پر چلتے ہیں، وہ پانی جو بحرِ اوقیانوس (آرکٹک اوشن) میں برف بنا ہوا ہے۔ گرمیوں میں یہ برف 90 لاکھ سکوئر کلو میٹر رہ جاتی ہے جبکہ موسم سرما میں یہ ایک کروڑ 60 لاکھ سکوئر کلو میٹر ہوتی ہے۔ اس کی گہرائی محض 5 میٹر ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز بات ہے جب اس کا موازنہ انٹارکٹکا کی تین ہزار میٹر چوڑی برف سے کیا جائے۔
رابنسن کروسو جزیرہ، چلی
ادبی تاریخ میں رابنسن کروسو کو سب سے معروف لیکن تنہا کردار کہا جاتا ہے۔ ان کے نام پر بنایا گیا جزیرہ بھی اتنا ہی تنہا اور مشہور ہے۔ یہ جنوبی امریکہ کے ساحل سے 670 کلو میٹر دور ہے۔ اسے سنہ 1704 میں تب دریافت کیا گیا جب الیگزنڈر سلکرک نے اپنے بحری جہاز کے کیپٹن سے لڑائی کے بعد مطالبہ کیا کہ انھیں اس ساحل پر اتارا جائے گا۔ وہ یہاں تنہا چار سال تک رہے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ناول نگار ڈینیل ڈیفو کو رابنسن کروسو نامی کردار لکھنے کے لیے کہا تھا۔ آج بحر الکاہل کے اس جزیرے پر تقریباً 500 لوگ رہتے ہیں اور یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد بھی 100 کے قریب ہوتی ہے۔
نیواڈو مِسمی، پیرو
ایمیزون کو دنیا کا سب سے بڑا دریا کہا جاتا ہے۔ لیکن کچھ سال قبل تک یہ معلوم نہیں کیا جا سکتا تھا کہ اس کا پانی کہاں سے آ رہا ہے۔ سنہ 2001 میں نیشنل جیو گرافک کی ایک سروے ٹیم نے جی پی ایس کی مدد سے اس کا پتا لگایا تھا۔ یہ مقام جنوبی پیرو میں واقع ہے۔ یہ لیما سے 700 کلو میٹر دور جبکہ دریا کے دہانے سے 3000 کلو میٹر دور ہے۔ نیواڈو مسمی میں پہاڑ کی اونچائی 5597 میٹر ہے۔
اوکھن جزیرہ، روس
یہاں جانے کے لیے آپ کو ٹرانس سائبیرین ریلوے پر سفر کرنا ہو گا جو بیکل جھیل کے ساتھ چلتی ہے۔ بیکل جھیل دنیا کی سب سے گہری تازہ پانی کی جھیل ہے۔ آپ اس مقام کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ ماسکو سے ساڑھے تین دن ٹرین پر سفر کرتے ہوئے آپ یہاں پہنچ سکتے ہیں۔ جبکہ بیجنگ سے اس کا فاصلہ تین دن کا ہے۔ اس میں دنیا کا 20 فیصد تک تازہ پانی ہے۔ اسی کے قریب اوکھن جزیرہ موجود ہے جو 72 کلو میٹر لمبا ہے۔ یہ بیکل کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ اس کے ماحول کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں بحیرہ اسود کے ساحل کے مقابلے زیادہ دھوپ پڑتی ہے۔ تاہم جھیل کا اکثر حصہ اور یہ جزیرہ بادلوں تلے ڈھکے رہتے ہیں۔
جزیرہ نما علاقہ کاماچٹکا، روس
اگر آپ اس چیز کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں کہ روس کتنا بڑا ہے تو جزیرہ نما علاقے کاماچٹکا کو تصور کریں جس کی مشرقی ساحلی پٹی ماسکو سے زیادہ لاس اینجلس کے قریب ہے۔ یہاں اردگرد لاوے سے بھرے میدان ہیں۔ اس جگہ کو روس چاند پر جانے کے تجربات کے لیے استعمال کرتا تھا۔ کچھ عرصہ قبل تک یہاں جانے کے لیے چھ مہینے لگتے تھے لیکن آج آپ ماسکو سے 11 گھنٹے کی پرواز کے ذریعے یہاں پہنچ سکتے ہیں۔ یہ شاید زمین کی سب سے لمبی مقامی پرواز ہے۔
سکاٹی کیسل (قلعہ)، امریکہ
سنہ 1920 کی دہائی میں شکاگو کے ارب پتی ایلبرٹ جانسن کو کہا گیا کہ کیلیفورنیا کی ڈیتھ ویلی (یعنی موت کی وادی) میں سونا ہے۔ جانسن کو ان خشک حالات میں اور تو کچھ نہ ملی لیکن ان کی صحت بہتر ہو گئی۔ اسی خوشی میں انھوں نے اس سحرا میں ایک قلعہ تعمیر کروایا۔ یہاں کا درجہ حرارت دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ہسپانوی انداز کا یہ قلعہ ڈیتھ ویلی میں موجود 70 کلو میٹر دور بستیوں کے مقابلے ایک حماقت لگتا ہے۔
مزید خبروں اور اپڈیٹس کے لیے وزٹ کیجئے گرانہ بلاگ۔