کہا جاتا ہے کہ راستے منزل کا پتہ دیتے ہیں اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پُر خطر راستے ایک حسین اور خوبصورت منزل کی پیشگوئی کرتے ہیں۔ زندگی میں سفری ضروریات کے دوران انسان کو ایک سے دوسری جگہ جانے کے مواقع کئی بار پیش آتے ہیں جس کے لیے ہم مخلتف راستوں اور ذریعوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
اگر پاکستان کے سفر کی بات کی جائے تو جہاں شمالی علاقہ جات قدرتی مناظر، خوبصورتی اور دلکشی میں اپنی مثال آپ ہیں وہیں پُر خطر اور دشوار گزار راستے ان علاقوں کا خاصہ ہیں۔ چلیے دیکھتے ہیں کہ پاکستان کی وہ خطرناک ترین سڑکیں کون سی ہیں جہاں پر معمولی سی کوتاہی بھی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔
قراقرم ہائی وے
قراقرم ہائی وے جو پاکستان سے چین میں بذریعہ سڑک تجارت اور سفری سرگرمیوں کی بنیادی گزرگاہ ہے سال بھر اکثر شدید ترین لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں رہتی ہے۔ 800 میل طویل قراقرم ہائی وے اکثر قدرتی آفات میں گِھری رہتی ہے جس میں لینڈ سلائیڈنگ، برفانی تودے، سیلاب اور شدید برفانی طوفان شامل ہے۔ اس سڑک کو دنیا کی پُراسرار اور خوفناک ترین شاہراہوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
فیئری میڈوز روڈ
پاکستان میں شاندار اور خوبصورت ترین سیاحتی مقام فیئری میڈوز کو جاتی سڑک کو دنیا کی دوسری خطرناک ترین شاہراہ قرار دیا جاتا ہے جبکہ سطح سمندر سے اس سڑک کی غیر معمولی اونچائی، ناہموار اور کم چوڑائی پُر خطر ہونے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہیں۔
سفر قراقرم ہائی وے سے شروع ہوتا ہے اور جنوب کی طرف تتو گاؤں کی طرف جاتا ہے۔ آخر میں سڑک اتنی تنگ ہو جاتی ہے کہ تتو گاؤں سے فیری میڈوز نیشنل پارک تک کے حصے کو پیدل پار کرنا ہی ممکن ہے۔
وادی شمشال کو جانے والی سڑک
شمشال وادی کی سڑک جو بلند و بالا پہاڑی چوٹیوں کے درمیان گوجال، ہنزہ نگر ضلع میں واقع ہے جو پاکستان کی وادی ہنزہ کی سب سے اونچی اور ایک الگ بستی ہے۔ یہ ایک شاندار، لاجواب اور سب سے خطرناک پہاڑی سڑکوں میں سے ایک ہے جو شاذ و نادر ہی 10 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ رفتار کی اجازت دیتی ہے۔
وادی شمشال کو جانے والی یہ سڑک 56 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ خطرناک سڑک تجربہ کار ڈرائیوروں کی سڑک کہلاتی ہے جہاں ڈرائیونگ کرنے والے نئے افراد کی کوئی گنجائش نہیں۔
ہزاروں فٹ نیچے دیکھنے پر خطرات سے بھرپور سینکڑوں میٹر کی عمودی کھائی والی سڑک پر سفر کا احساس اوسان خطا کر دینے کے لیے کافی ہے۔
بابوسر پاس
بابوسر پاس کو جانے والی سڑک پھسلن اور سلائیڈنگ کی وجہ سے بہت مشہور ہے جس پر تنگ اور بل کھاتے کئی موڑ ہیں۔ وہاں سفر کے دوران چھوٹی سی غلطی بھی کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ راستہ عموماَ جون سے ستمبر تک کھولا جاتا ہے اور سال کے باقی حصے میں برفانی تودے گِرنے اور شدید برف باری کے باعث مکمل بند رکھا جاتا ہے۔
بابوسر پاس 4173 میٹر کی بلندی پر گلگت بلتستان کو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے ملاتا ہے۔ سردیوں میں بابوسر کا علاقہ شدید برف باری کی وجہ سے بند ہو جاتا ہے۔ بابوسر پاس صرف جون کے وسط سے ستمبر تک کھلا رہتا ہے۔ بابوسر روڈ دنیا کی بَل کھاتی سڑکوں میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔
استور روڈ
استور روڈ گلگت بلتستان کی مشہور ترین سڑک ہے۔ جہاں پر عام سیاحوں کی جگہ مقامی لوگ ہی جیپوں کے زریعے سفر ممکن بنا سکتے ہیں۔ اس سڑک کو صرف موسمِ گرما میں ہی کھولا جاتا ہے۔ یہ سڑک 115 کلو میٹر طویل ہے جس کا زیادہ تر حصہ کچا ہے جس پر جیپ ہی چلائی جا سکتی ہے۔ اس کے ایک طرف بلند پہاڑ اور دوسری جانب گہری کھائی اور بہتا دریا ہے۔
بولان پاس
بولان پاس ایک بلند پہاڑی راستہ ہے جو سطح سمندر سے 5,884 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور مغربی پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع ہے۔ بولان پاس کو جنوبی ایشیا کے گیٹ وے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یہ انتہائی دشوار گزار سڑک ہے جس پر کئی ریلوے ٹریکس اور خطرناک پُل تعمیر ہیں۔
خنجراب پاس روڈ
یہ سڑک پاکستان اور چین کے بارڈر پر واقع ہے جس پر برف باری کی وجہ سے پھسلن بہت زیادہ ہوتی ہے۔ سال کے چھ ماہ یہ سڑک برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ اس سڑک پر کھائیوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو اسے خطرناک بناتا ہے۔ یہ سطح سمندر سے 15,528 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ خنجراب پاس دنیا کا سب سے اونچا بارڈر کراسنگ اور شاہراہ قراقرم کا بلند ترین مقام کہلاتا ہے۔
جلکھڈ، شاردا روڈ (نوری ٹاپ)
یہ 48.7 کلومیٹر لمبی سڑک ہے جو سطح سمندر سے 12,988 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور نوری ٹاپ تک جاتی ہے۔ یہ سڑک ناران میں جلکھڈ اور کشمیر میں وادی شاردا کو جوڑتی ہے۔
ہر قدم اونچائی کی طرف بڑھتا یہ تنگ راستہ مٹی، بجری اور پانی کی ندیوں سے بھرپور ہے۔
ٹریک صرف جولائی سے ستمبر تک کھلا رہتا ہے۔ چوٹی تک جانے والی سڑک 1998 میں کارگل جنگ کے دوران پاک فوج نے بنائی تھی اور جنگ کے دوران پاک فوج کے زیر استعمال تھی۔ اب اس پاس اور ٹاپ کو سیاحتی مقام کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
برزیل پاس روڈ
یہ سڑک پاکستان کی سب سے اونچی سڑک کہلاتی ہے جو سال کے بارہ مہینے برفانی تودوں کی وجہ سے بند رہتی ہے۔ اس کی سطح سمندر سے اونچائی 13,451 فٹ ہے جو گلگت بلتستان کے ہمالیہ سلسلے میں واقع ہے۔ پاکستان آرمی اپنی چیک پوسٹ تک پہنچنے کے لیے اسے بھاری مشینوں سے صاف کرتی ہے۔
اس کا موسم سخت اور انتہائی غیر متوقع ہوتا ہے۔ برزیل پاس پر شدید برف باری کی وجہ سے صرف جولائی سے ستمبر تک رسائی ممکن ہے۔ برزیل پاس کشمیر سے چین کے درمیان مشہور تجارتی راستہ ہے جو استور کے گاؤں منی مرگ کا گیٹ وے ہے۔
وادی نیلم کی سڑک
وادی نیلم کی سڑک برف باری میں ایک نہایت خطرناک راستہ ہے۔ بارشوں کے موسم اور لینڈ سلائیڈنگ میں سیلابی ریلہ سڑک کو اکثر ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ یہ سڑک لائن آف کنٹرول کے بالکل کنارے پر واقع ہے جہاں دریائے نیلم کے نظارے کے علاوہ جموں کشمیر میں بھارت کی چوکیاں واقع ہیں اور وہاں سے پاکستان کے شہریوں پر آئے روز فائرنگ اور شیلنگ کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
ان پُر خطر راستوں اور سڑکوں کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں کے سفر کا خیال ترک کر دیا جائے۔ پاکستان کی خوبصورت اور دلکش وادیوں کی سیر کے لیے احتیاط کو ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے۔